اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل، جمالیات اور اخلاقیات جیسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہ انسان کی انفرادیت ہے کہ اس کی تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی ان تین بنیادی خصوصیات کا ایک متوازن امتزاج رکھتا ہے۔ یہ بنیادی اور اساسی صلاحیتیں صرف امن میں پروان چڑھتی اور نشوونما پاتی ہیں۔ محبت امن کا دروازہ ہے۔ ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا راستہ چننے کا حق حاصل ہے۔ کسی بھی فرد کا کوئی بھی مذہب ہو سکتا ہے مگر کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو کوئی اور مذہب کو اختیار کرنے، قبول کرنے یا مسترد کرنے پر مجبور کرے۔ جبر انسانی وقار اور آزادی کے خلاف ہے۔ تنوع کوئی برائی نہیں لیکن اس کا ذاتی مفادات کے لیے استعمال ایک قبیح عمل ہے۔
ہر عقلمند انسان ایک مخصوص نظریات، عقائد، تصورات، اصولوں اور ایمان کے مجموعے کے ساتھ زندگی گزارتا ہے، جنہیں وہ اپنے مذہب سے اخذ کرتا ہے۔ دنیا میں مختلف مذاہب موجود ہیں اور مختلف ادوار میں مختلف تاریخی، جغرافیائی، نسلی، ثقافتی اور فکری پس منظر رکھنے والے مذہبی رہنماؤں، مفکرین، دانشوروں اور فلاسفہ نے مذہب کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ علامہ محمد اقبال مذہب کی وضاحت اپنی کتاب؛ The Reconstruction Of Religious Thought in Islam میں کہتے ہیں:
’’Religion is not a departmental affair; it is neither mere thought, nor mere feeling, nor mere action; it is an expression of the whole man‘‘
’’مذہب کوئی محض رسمی معاملہ نہیں ہے۔ یہ نہ صرف ایک خیال ہے، نہ صرف ایک احساس، اور نہ صرف ایک عمل؛ بلکہ یہ مکمل انسان کا اظہار ہے۔ ‘‘
پروفیسر وائٹ ہیڈ مذہب کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
“A religion, on its doctrinal side, can thus be defined as a system of
general truths which have the effect of transforming character when they are
sincerely held and vividly apprehended”.
(Religion in the Making. Cambridge University Press.)
’’مذہب کو اس کے اعتقادی پہلو سے ایک ایسے عمومی سچائیوں کے نظام کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے جسے جب مخلصانہ طور پر اپنایا جائے اور گہرائی سے سمجھا جائے تو وہ کردار کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ‘‘
ان دونوں تعریفات کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ مذہب اصولوں، عقائد اور اقدار کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے ایک انسان اپنی پوری زندگی میں اپنی مرضی سے قبول کرتا اور نافذ کرتا ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ دیگر نظریات سے بہتر ہیں۔ مذہب انسان کے خیالات، احساسات اور اعمال میں انقلاب پیدا کرتا ہے اور ان کو بدل دیتا ہے۔
ہر انسان اپنی عقل، تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعی فہم و شعور کے اعتبار سے ایک منفرد ہستی ہے، اس لیے اختلافِ رائے ایک فطری امر ہے۔ کسی بھی نظریے، عقیدے، ایمان اور مذہب کی بقا اور وجود اس کی افادیت پر منحصر ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِ ؕ كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَؕ.
(الرعد، 13: 17)
’’اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لیے نفع بخش ہوتا ہے، وہ زمین میں باقی رہتا ہے، ﷲ اس طرح مثالیں بیان فرماتا ہے۔ ‘‘
ہر مذہب کے بانی کے لیے اس کے مکتبِ فکر کا بنیادی مقصد انسانی زندگی کی تنظیم، نظام سازی، تہذیب و تمدن اور سہولت کاری رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، مذہب کے نام پر یا مذہب کی آڑ میں، مفاد پرست عناصر کے ذاتی مفادات کے لیے بے شمار انسانوں کا قتل عام کیا جا چکا ہے۔ دیگر کئی مسائل کے علاوہ، آج انسانیت شدت پسندی کے شدید بحران کا شکار ہے۔
انتہا پسندی و دہشت گردی کی وجوہات اور چیلنجز
پاکستان کی بنیاد قرآن کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم ﷺ کے مثالی کردار پر ہے۔ پاکستان کے قیام کا حتمی مقصد اسلام کی تعلیماتِ امن و محبت اور بھلائی کو عملی شکل دینا اور انہیں حقیقت میں ڈھالنا تھا۔ مگر بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے کے ایک طبقے نے اسلام کی اس روح اور پاکستان کے قیام کے مقصد کو فراموش کر دیا ہے، بین المسالک اور بین المذاہب تشدد نے اب تک تمام مکاتب فکر اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بے گناہ افراد کی جان لے لی ہے۔ یہ افسوسناک صورتِ حال قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر چکی ہے اور معاشرتی ڈھانچے کو نقصان پہنچا چکی ہے۔ تاہم، قومی اور بین الاقوامی سازشوں کے باوجود شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان جیسے کچھ پرعزم افراد نے ان ناپاک عناصر کا جرأت مندی سے مقابلہ کیا اور ان کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ عدم برداشت، تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی درج ذیل وجوہات ہیں۔ موجودہ تباہ کن حالات میں ان وجوہات اور چیلنجز کو سمجھے بغیر ان کا حل تلاش کرنا ناممکن ہے:
(1) بیرونی طاقتوں کی مداخلت
پاکستان کے قیام کے بعد استعماری قوتوں نے نومولود ریاست کو آزاد نہیں چھوڑا۔ پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے کئی بین الاقوامی استحصالی طاقتیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے لگیں، تاکہ اسے عدم استحکام کا شکار کیا جا سکے اور اس کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالا جا سکے۔ پاکستان ایک کثیر الثقافتی اور کثیر المذاہب ملک ہے۔ کئی ممالک نے بھی اپنے مفادات کے لیے یہاں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں پاکستان پراکسی جنگوں کا مرکز بن گیا۔ اس کے نتیجے میں ہمیں ہر سطح پر تقسیم، اختلاف، تصادم اور تضاد نظر آتا ہے۔ صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب تقسیم در تقسیم، فرقے در فرقے اور گروہ در گروہ کی شکل میں مزید تقسیم پیدا ہو رہی ہے۔ سیاست سے لے کر معیشت، مذہب سے ثقافت، فرد سے معاشرہ اور سرکاری اداروں سے نجی تنظیموں تک، ہر چیز بیرونی طاقتوں کے استحصال کی زد میں آ چکی ہے۔
(2) ناخواندگی اور جہالت
علم ہی ترقی کا واحد ذریعہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں خواندگی کی شرح 60% یا اس سے بھی کم ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں غربت اپنے عروج پر ہے، یہ شرح نہایت تشویشناک ہے۔ ایک ناخواندہ ہجوم کو مذہب اور عقیدے کے نام پر گمراہ کرنا سب سے آسان ہوتا ہے۔
ناخواندگی یقیناً ایک بڑا مسئلہ ہے، لیکن دورِ حاضر کے مسائل اور معاملات سے لاعلمی ایک اور سنگین تباہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں طبقات اصل مسائل سے بے خبر ہیں اور غیر ضروری معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ بھی ہے کہ لوگوں کی اکثریت بغیر کسی تسلی بخش مذہبی علم کے مذہب پر بحث کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے مذہب بلکہ دیگر مذاہب کے بارے میں بھی کم علمی کا شکار ہوتے ہیں اور بے بنیاد اور غیر منطقی بیانات دیتے ہیں۔
(3) نفرت انگیز مواد کی تشہیر
یہ بھی ایک بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں نشرو اشاعت کے حوالے سے کوئی مؤثر نگرانی اور توازن کا نظام موجود نہیں۔ کوئی بھی فرد یا تنظیم بغیر کسی اجازت یا اعلان کے کسی بھی قسم کی کتاب، کتابچہ، پمفلٹ یا مضمون شائع کر سکتی ہے۔ اسی طرح مادر پدر آزاد سوشل میڈیا بھی بین المسالک و بین المذاہب دوریاں پیدا کرنے اور رواداری و برداشت کے ماحول کو پروان نہ چڑھنے دینے میں گھناؤنا کردار ادا کررہا ہے۔ ریاست میں کوئی مؤثر اشاعتی و تشہیری پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی معاشرے میں اس حوالے سے اخلاقیات کا شعور پایا جاتا ہے۔
(4) کمزور سیاسی نظام اور نااہل سیاسی اشرافیہ
قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد پاکستان سیاسی پیچیدگیوں میں الجھ گیا۔ ملک کو چلانے کے لیے کئی آئینی اور غیر آئینی تجربات کیے گئے، لیکن بدقسمتی سے کوئی بھی کامیاب ثابت نہ ہوا۔ نتیجتاً، آج ہم ایک کمزور ریاستی نظام اور ناقص سیاسی قیادت کا سامنا کر رہے ہیں، جو ریاستی عملداری کو یقینی بنانے میں ناکام ہے۔ اس افراتفری نے تمام امن دشمن سرگرمیوں، خصوصاً فرقہ وارانہ تصادم کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے۔
کمزور سیاسی نظام بدعنوانی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ قائدین کو ان کے پیروکار رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہماری قیادت، اوپر سے نیچے تک، زیادہ تر بدعنوانی میں ملوث ہے۔ چونکہ وہ اپنی کارکردگی سے انتخابات جیتنے کے قابل نہیں ہوتے، اس لیے وہ فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو بعد میں انہیں اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے تحفظ کے لیے بلیک میل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، غیر ریاستی عناصر کا غیر آئینی کردار بھی تشویشناک ہے۔
(5) کمزور معیشت، بھاری قرضے، غیر منظم آبادی
غربت تمام سماجی برائیوں کی جڑ ہے۔ پاکستان کی معیشت کمزور ہے، جبکہ غیر منظم آبادی 25 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ عوام قرضوں اور سود کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ بیشتر اشرافیہ بدعنوان ہے، برآمدات کی شرح کم جبکہ درآمدات کی مقدار زیادہ ہے۔ موجودہ معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر پر ہے لیکن ملک میں مقامی روزگار کے مواقع ناکافی ہیں اور بیرون ملک محنت کرنے والے پاکستانیوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ ایسے افسوسناک حالات میں، یہ ملک ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔
(6)معاشرتی تقسیم اور سماجی انصاف کا فقدان
ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ ہم مختلف حوالوں سے تقسیم ہو چکے ہیں، جیسے کہ مذہب، فرقہ، زبان، نسل، اور رنگ۔ مذہبی مدارس اور جامعات کے نصاب اور تعلیمی طریقوں میں واضح فرق موجود ہے۔ تدریس کے مقاصد اور نتائج بھی مختلف ہیں۔ بدقسمتی سے، اندھی تقلید کرنے والے اپنے نظریات کو مقدس سمجھتے ہیں اور کسی بھی اختلافِ رائے کو گمراہی قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح ہمارا معاشرہ سماجی انصاف جیسی اقدار سے بھی محروم ہے۔ انصاف کسی بھی معاشرے کی بنیادی سماجی قدر ہے۔ ایک فرد اور معاشرے کی بقا کا انحصار سماجی عدل اور انصاف پر ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور بھی اسی سے جنم لیتا ہے۔ مختلف حوالوں سے معاشرتی تقسیم اور انصاف کی عدم موجودگی یا کمی سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے، جو انتہا پسندی، بنیاد پرستی، اور دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں زندگی کے ہر شعبے میں ایک واضح تقسیم موجود ہے اور انصاف کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یہ تمام امور مایوسی، انتہا پسندی، اور تشدد کو جنم دے رہے ہیں۔
انسدادِ انتہا پسندی و دہشت گردی کے لیے اقدامات
پاکستان ایک کثیر المذاہب اور کثیر الثقافتی ملک ہے۔ تمام مذکورہ چیلنجز اور رکاوٹوں کے باوجود، ہمیں پاکستان میں بین المسالک اور المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے حوالے سے پر امید رہنا چاہیے۔ پاکستانی عوام مخلص، دیانت دار، اور محب وطن ہیں۔ ان میں محبت، امن اور ہم آہنگی کا شدید جذبہ پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے اپنے مسالک، مذاہب اور ثقافتوں کے مطابق ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنی مذہبی اور معاشرتی اقدار کو مضبوط کریں، تعلیمی نظام کو بہتر بنائیں، سماجی انصاف کو یقینی بنائیں، اور مذہبی رواداری کو فروغ دیں، تو پاکستان ایک پرامن اور ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے۔
اس لیے کہ مسلمان کے لیے یہ نہ صرف ایک اخلاقی بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے۔ دینِ اسلام ہر انسان کے لیے انتہائی احترام، عزت، دیانت اور مساوی حقوق کا درس دیتا ہے۔ قرآنِ پاک کی بے شمار آیات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دہشت گردی کے خلاف اپنے مبسوط فتویٰ میں لکھتے ہیں:
’’حضور اکرم ﷺ کی سیرتِ مطہرہ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ آپ ﷺ کی رحمت نہ صرف انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر محیط ہے، جیسے کہ رشتہ دار، ہمسائے، یتیم، بے سہارا، قیدی، بچے، بوڑھے، خواتین، غلام، بیمار، حتیٰ کہ دشمن، فطرت، درخت، کھیت، پانی، ہوا، اور دیگر تمام مخلوقات۔ تو پھر اس رحمت والے نبی ﷺ کے پیروکار کیسے بے رحم یا دہشت گرد ہو سکتے ہیں؟‘‘
آپ ﷺ کے ماننے والوں کی پہلی اور نمایاں خصوصیات محبت، امن، بھلائی، رحمت اور احترام پر مبنی ہونی چاہئیں، ظلم و بربریت پر نہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے دیگر مذاہب کے افراد کے ساتھ حسن سلوک اور بین المذاہب ہم آہنگی کی کئی مثالیں قائم کیں۔ آپ ﷺ نے نہ صرف دوسرے مذاہب کے افراد سے تعلقات استوار کیے بلکہ بعض اوقات مسجد نبوی میں دیگر مذاہب کے مذہبی رہنماؤں کو بھی خوش آمدید کہا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک سچا مسلمان کسی بھی طرح ظالم، دہشت گرد یا بے رحم نہیں ہو سکتا۔
میثاقِ مدینہ اس بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔ قرآن و حدیث اور سیرت النبی ﷺ کی تعلیمات سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اسلام نہ صرف امن، محبت اور ہم آہنگی کا دین ہے بلکہ تمام انسانیت کے لیے خیر و برکت اور فلاح و بہبود کی راہ دکھاتا ہے۔ ایک سچا مسلمان دہشت گرد نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ دوسروں کے لیے باعثِ رحمت اور امن کا پیامبر ہوتا ہے۔
مدینہ منورہ ہجرت کے بعد مسلمان بدستور طاقتور ہوتے گئے یہاں تک کہ فتح مکہ کے بعد تو پورے عرب پر مسلمان ریاست کا رعب و دبدبہ قائم ہوگیا۔ اگرچہ اس وقت مسلمان طاقت میں تھے اور ایک مضبوط ریاست کے مالک تھے، لیکن نبی اکرم ﷺ نے تمام غیر مسلم شہریوں کے انسانی، مذہبی، سماجی اور ثقافتی حقوق کو تسلیم کیا اور انہیں پہلی مسلم ریاست میں مساوی شہری حیثیت عطا کی۔ نبی اکرم ﷺ نے جبل سینا کے راہبوں، نجران کے عیسائیوں، فارس کے عیسائیوں، آرمینیائی عیسائیوں، مقنا کے یہودیوں، یمن کے یہودیوں، زرتشتیوں، مصر کے قبطی عیسائیوں، شامی آرتھوڈوکس عیسائیوں، سامریوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ معاہدے کیے۔ یہ تمام معاہدے ہر انسان کے حقوق کو بغیر کسی تعصب کے تسلیم کرنے کی بہترین مثالیں ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد، آپ ﷺ کے سچے پیروکاروں نے ہر دور اور ہر شعبۂ زندگی میں آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی۔ آج کے دور میں اس کی ایک جاندار اور خوبصورت مثال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور اُن کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کے لیے تحریری، تقریری اور عملی طور پر سرگرمِ عمل ہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے سفارشات
آج دنیا کی تقریباً 8 ارب آبادی جوہری ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ انسانی نسل کو مختلف بنیادوں پر کئی حصوں میں تقسیم کیا جا چکا ہے، جن میں مذہب ایک انتہائی مؤثر عنصر ہے۔ لہٰذا، اس مسئلے کے پس منظر، وجوہات، رکاوٹوں، اور چیلنجز کو گہرائی سے سمجھنے کے بعد درج ذیل تجاویز پر عمل کرنا ضروری ہے تاکہ بین المذاہب اور بین الادیان ہم آہنگی کے مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔
1۔ علمی اور تعلیمی تحریک: بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کی تحریک کی آگاہی ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ اس لیے ہمیں تعلیمی اداروں سے شروع کرنا چاہیے۔ دانشور اور تعلیمی شعبہ معاشرے کا ذہن ہوتے ہیں اور وہ استاد، مصنف، مقرر، تجزیہ کار اور مشیر کے طور پر عوام میں شعور اجاگر کر سکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں لیکچرز اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے تاکہ شعور اور آگاہی پیدا کی جا سکے۔
2۔ مذہبی حلقوں کا کردار:اکثر مذہبی رہنماؤں کے پیروکار ان پر اندھا اعتماد رکھتے ہیں، اس لیے ہمیں مذہبی حلقوں تک رسائی حاصل کرنی چاہیے۔ مذہبی رہنما اپنے پیروکاروں کی ذہنی تربیت کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ مصنوعی اختلافات ختم کرنے کے لیے مذہبی رہنماؤں کو ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات، اجتماعات اور سرگرمیوں میں شرکت کرنی چاہیے۔
3۔ مکالمہ، نہ کہ مناظرہ:ہمیں سکھانے کے بجائے سیکھنے کی ثقافت کو فروغ دینا ہوگا۔ خیالات کا تبادلہ عزت، شائستگی اور نیک نیتی کے ساتھ کرنا چاہیے۔ کبھی بھی اپنی رائے دوسروں پر مسلط نہ کریں۔ مذاہب کا موازنہ کرنے سے گریز کریں اور ہمیشہ دوسرے مذاہب کی مقدس ہستیوں، بانیوں اور مذہبی کتب کا احترام کریں۔ مکالمہ سیکھنے کے لیے ہو، نہ کہ دوسروں کو قائل کرنے کے لیے۔
4۔ سماجی روابط میں اضافہ:معاشرے کے تمام افراد کے ساتھ کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ سماجی و ثقافتی روابط، تعلقات اور دوستی کو فروغ دینا چاہیے۔ اس سے غلط فہمیاں دور ہوں گی اور باہمی تعلقات مضبوط ہوں گے۔
5۔ ریاست کی ذمہ داری:ریاست کو اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ امن کے بغیر استحکام ممکن نہیں۔ ریاستی سطح پر اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں "بین المذاہب ہم آہنگی" کے نام سے ایک مضمون متعارف کرایا جائے۔ کالج اور یونیورسٹی سطح پر آزاد شعبے (Departments) قائم کیے جائیں۔ اس ڈگری کو ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) سے تسلیم شدہ بنایا جائے۔ اس مضمون اور نظریے کو فروغ دینے کے لیے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خصوصی نشستیں مختص کی جائیں۔ ریاست کو ان تمام سرگرمیوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
الحمدللہ اس حوالے سے منہاج یونیورسٹی میں باقاعدہ ایک شعبہ قائم ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ جہاں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ اور دیگر ادیان کی حقیقی تعلیمات کو جاننے کے لیے ان ہی ادیان سے تعلق رکھنے والے سکالرز خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
6۔ میڈیا کی زندہ اور متحرک شمولیت:میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، اس لیے اسے ایک مشن کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر مذاکرات اور مکالمے کا انعقاد کرنا چاہیے۔ ان پروگرامز میں تمام مذاہب کے نمائندوں کو برابر موقع دیا جائے۔ معروف کالم نگاروں کو قومی و بین الاقوامی سطح پر اس موضوع پر مضامین لکھنے کی ترغیب دی جائے۔
ان تمام سفارشات پر عمل درآمد سے دنیا میں امن، رواداری، اور بھائی چارہ فروغ پائے گا، اور بین المذاہب ہم آہنگی کا خواب حقیقت بن سکے گا۔ ہر سچے، مخلص، دیانتدار، اور بااعتماد فرد کی یہ انسانی اور مذہبی ذمہ داری ہے، خواہ وہ مذہبی رہنما، اسکالر، دانشور، استاد، محقق، مصنف، مقرر ہو اور مدارس، جامعات، ادارے، یا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ ہو کہ وہ محبت، امن، اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔ ہم سب کو نفرت کے خاتمے کے لیے متحد ہونا ہوگا اور ایک فلاحی ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا ہوگا۔