مقصد حیات اور فلسفہ مزاحمت

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے اس کائنات میں کسی بھی وجود کو بے مقصد پیدا نہیں فرمایا۔ ہر انسان، ہر وجود، ہر شے خواہ وہ چرند و پرند ہوں یا شجرو حجر، وہ حیوانات ہوں یا پھر انسان، ہر وہ شے جسے اللہ رب العزت نے تخلیق فرمایا ہے، اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ مخلوق خود اپنے ہونے کا مقصد سمجھ نہ پائے یا کوئی دوسرا اس کے ہونے کا مقصد سمجھ نہ پائے۔ لیکن اس بات پر یقین رکھنا ضروری ہے کہ یقیناً اس کی تخلیق کا مقصد اللہ کے ہاں ضرور ہے۔

یہ مقصد اس کے پیدا ہونے کے بعد اسے نہیں دیا گیا بلکہ اس کے دنیا میں آنے سے قبل اللہ رب العزت نے اس کی سرشت میں اس کا مقصد ودیعت فرما دیا تھا۔ دنیا میں آنے کے بعد اپنی شعوری استطاعت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر انسان کو اپنے اسی مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ کچھ اپنی کوشش کے ذریعے اپنے مقصد تک پہنچ جاتے ہیں اور کچھ تمام عمر کوشش کرنے کے باوجود اس مقصد تک نہیں پہنچ پاتے۔

مقصدِ حیات کی وضاحت میں مولانا روم نے اپنی مثنوی میں شہد کی مکھی کی بہت خوبصورت مثال بیان فرمائی کہ جیسے کائنات کے اندر ہر شے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو بھی بے مقصد پیدا نہیں فرمایا۔ جیسے ہر انسان یا شے کو اس کا مقصد اس کی پیدائش سے پہلے عطا کردیا جاتا ہے، اسی طرح شہد کی مکھی کو دنیا میں بھیجنے سے قبل اس کا مقصد دے دیا جاتا ہے۔ شہد کی مکھی مختلف باغات میں جاکر پھولوں پر بیٹھ کر ان کا رس اکٹھا کرتی ہے، پھر اپنا چھتہ بناکر وہ رس اس چھتے میں منتقل کرتی ہے۔ یہ اس کی تخلیق کا مقصد ہے چنانچہ وہ یہی کام سرانجام دیتی ہے اور بالآخر ایک بامقصد زندگی گزار کر ختم ہوجاتی ہے۔ گویا شہد کی مکھی اس دنیا میں جس مقصد کو لے کر آتی ہے، وہ اسی مقصد کی تکمیل کے لیے زندگی گزارتی ہے۔

مولانا روم شہد کی مکھی کے اس مقصد کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر یہ مکھی شہد بنانے کا کام نہ کرے اور اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا نہ کرے بلکہ یونہی باغوں اور گلستان میں اڑتی پھری، پھولوں اور کلیوں پر بیٹھے، ان کا رس چوسے، لوگ اسے اڑتا ہوا اور پھولوں پر بیٹھے ہوئے بھی دیکھیں، یعنی دیکھنے میں شہد کی مکھی بہت مصروف زندگی گزارے لیکن اصل مقصد جو شہد پیدا کرنا ہے، وہ نہ کرے تو کیا اس مکھی نے اپنا حقیقی مقصد پورا کیا یا وہ بے مقصد مرگئی۔۔۔ ؟ یقیناً وہ شہد کی مکھی بے مقصد مرگئی۔ دیکھنے میں تو وہ بڑی مصروف نظر آئی لیکن اپنے مقصد کی تکمیل نہ کرسکی۔

انسان بھی اس دنیا میں ایک مقصد لے کر آیا ہے لیکن ہماری اکثریت کی صورتِ حال یہ ہے کہ ہم لوگ سارا دن ایک ہزار کام کرتے ہیں۔ کبھی اس مجلس میں بیٹھتے ہیں تو کبھی دوسری مجلس میں جاتے ہیں۔۔۔ کبھی یہاں باتیں کرتے ہیں، کبھی وہاں باتیں کرتے ہیں۔۔۔ کبھی یہ کام کرتے ہیں، کبھی وہ کام کرتے ہیں۔۔۔ لیکن یکسوئی کے ساتھ زندگی کا کوئی ایک مقصد جسے ادا کرنا ہے، وہ ہمارے شعور میں واضح ہی نہیں ہوتا، نتیجتاً بے مقصد زندگی گزار کر ہم اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف اگر کوئی شخص لوگوں سے بہت زیادہ ملتا جلتا نہ ہو، گوشہ تنہائی میں رہتا ہو، بہت سارے کام نہ کرتا ہو، اس کا سوشل سرکل بہت زیادہ نہ ہو، لیکن جس ایک مقصد کے لیے وہ آیا ہوا ہے، اس میں مصروف ہے اور وہ صرف اپنے مقصد کو مکمل کرکے اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو کہا جائے گا کہ اس شخص نے اپنے آنے کا مقصد پورا کردیا اور یہ اللہ کی نظر میں کامیاب ہے۔ ایسا بندہ لوگوں کی نظر میں شاید کوئی مفید ثابت نہ ہوا ہو لیکن گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر جس مقصد کے لیے آیا تھا، خواہ اس نے ایک یا دو کتب ہی تحریر کیں، مگر جانے سے پہلے وہ ایک تاریخی کام کرکے لوگوں کو دے گیا تو گویا اس نے اپنے آنے کا مقصد پورا کردیا۔

مقصد اور ضرورت میں فرق

بدقسمتی سے آج ہم بے مقصدیت کا شکار ہیں اور آج کی نوجوان نسل اس میں بہت زیادہ مبتلا ہوگئی ہے۔ کوئی یہ سمجھے کہ پیسے کمانا مقصد ہے تو جان لیں کہ یہ مقصدِ حیات نہیں بلکہ یہ زندگی کی ضروریات میں سے ایک ہے۔ مقصدِ حیات یقیناً کچھ اور ہے۔ اس دنیا میں جو بھی آیا ہے، رزق کماتا ہے، چاہے وہ جانور ہے، انسان ہے یا چرند پرند، ہر ایک نے رزق حاصل کرنا ہے۔ اگر مقصدِ حیات حصولِ رزق ہے تو سب کا مقصدِ حیات رزق ہوا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہر ایک کا ایک انفرادی تشخص ہے جو کائنات میں پیدا ہونے والی ہر شے کے ساتھ خاص ہے اور یہی مقصدِ حیات اسے دوسروں سے انفرادیت بخشتا ہے۔ کھانا تو تمام مخلوقات کو ملتا ہے، یہ تو سب کی ضروریات میں سے ہے لیکن انسان کی وہ خصوصیت کیا ہے جو اسے اپنے معاشرے میں منفرد بناتی ہے۔ یہ وہ شعورِ مقصد ہے جو اللہ رب العزت نے درحقیقت انسان کے اندر اس کی پیدائش سے پہلے ودیعت فرمادیا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اسے پورا نہیں کرتے۔

مقصدِ حیات کو پورا نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ جب ہم ہوش سنبھالتے ہیں تو دنیا کی رنگینیاں، رونقیں، شورو غل اور سوشل سرکل؛ ہمارے خیالات، افکار اور سوچوں کو منتشر کردیتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارا دھیان اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے اور ہم گردو نواح میں رائج حالات و واقعات میں کھو جاتے ہیں اور ان کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، ہماری نگاہ اپنے حقیقی مقصد سے ہٹ جاتی ہے، ہم کسی اور سمت سوچنا شروع کردیتے ہیں اور زندگی گزارتے گزارتے مقصدِ حیات سے بہت دور نکل جاتے ہیں۔

دنیا میں آنے سے قبل اللہ رب العزت نے انسان کی سرشت میں اس کا مقصد ودیعت فرما دیا تھا۔ اپنی شعوری استطاعت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر انسان کو اپنے اسی مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ کچھ اپنی تخلیق کے مقصد کو پہچان جاتے ہیں اور کچھ تمام عمر کوشش کے باوجود اس مقصد تک نہیں پہنچ پاتے۔

یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک گائیک (گانے والا) کسی محفل میں گیا۔ اسے ساری زندگی کی ریاضتوں کے بعد اس محفل میں پہلی مرتبہ سنانے کا موقع مل رہا تھا لیکن اسے موقع میسر نہ آسکا تو واپسی پر ان الفاظ کے ساتھ اس نے اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ’’میں جو سنانے آیا تھا وہ نہ سنا سکا۔ میری ساری زندگی صرف ساز اور آواز صاف کرنے میں گزر گئی۔ ‘‘ اگر انسان ساری زندگی ایک ہزار کام کرتا رہے مگر کوئی خاص کام اور کردار ادا کیے بغیر وہ دنیا سے رخصت ہوجائے تو جان لیں وہ صرف ساز اور گلا صاف کرتا رہا، وہ کسی کو کچھ سکھا اور سنا نہ سکا۔

مقصدِ حیات اور انسانی جبلت

یاد رکھیں! اللہ رب العزت نے انسان کی جبلت میں اس کے مقصد کی طرف میلان رکھا ہے۔ انسان کی طبیعت حالات سے وجود میں آتی ہے جبکہ اس کی جبلت ازل سے اللہ رب العزت نے اس کے اندر رکھ دی ہے۔ انسان کا میلان ہمیشہ اس کی جبلت کی طرف ہوتا ہے۔ طبیعت چونکہ حالات کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے، اس لیے یہ اسے گمراہ کردیتی ہے۔ اگر انسان اپنی طبیعت سے بالاتر ہوکر اپنی جبلت پر غور کرے تو اسے اپنے اندر ایسے میلانات نظر آئیں گے جو اس کے لیے علامتی زبان (Sign language) کا کام کریں گے اور وہ جان جائے گا کہ اللہ رب العزت نے اس کے لیے کیا مقصدِ حیات مقرر فرمایا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب انسان باہر کے کانوں کو بند کرکے اندر کی آوازوں کو غور سے سننے کی کوشش کرے۔

ہم سارا دن اس قدر شوروغل میں رہتے ہیں اور اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ہم اپنے اندر کی آواز اور جبلت کی پکار کو سن نہیں پاتے۔ جس کی وجہ سے اصل مقصدِ حیات کی طرف ہمارا ذہن متوجہ نہیں ہوتا۔ اللہ رب العزت نے انسان کے لیے کوئی بھی ایسا مقصد نہیں رکھا جسے پورا کرنا انسان کے بس کی بات نہ ہو۔ اگر ہم کسی ایسی چیز کو مقصد سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جسے حاصل کرنا یا مکمل کرنا، ہمارے بس میں نہیں تو وہ یقیناً طبیعت کا شاخسانہ ہوسکتا ہے، جبلت کا تقاضا نہیں۔

انسان کا مقصدِ حیات حصولِ رزق نہیں ہے۔ رزق تو ضروریاتِ زندگی میں شامل ہے۔ مقصدِ حیات وہ انفرادی تشخص ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے مگر ہم اسے دنیا کی رنگینیوں اور شورو غل میں حد درجہ مشغول ہونے کے سبب فراموش کرچکے ہیں۔

اللہ رب العزت نے ہر انسان اور نفس کو خیر پر پیدا فرمایا ہے لیکن جب انسان حالات و واقعات اور گزرتے ہوئے لمحات و کیفیات میں گم ہوجاتا ہے تو اس جبلت کی آواز اور احساس کو بھلادیتا ہے۔۔۔ اسے نظر انداز کرنے لگتا ہے۔۔۔ اس جبلت کی پکار کو ان سنی کردیتا ہے۔۔۔ اور حالات کی وجہ سے جو طبیعت بن چکی ہے، بس اس کی طرف متوجہ ہوکر ہوائے نفس کے ساتھ چلنے لگ جاتا ہے۔

جس دن اس نے جبلت کی پکار سنی، اسی دن اسے مقصدِ حیات مل جائے گا جو یقیناً رزق اور دنیا کی دولت کمانے سے بہت بڑا ہے۔ رزق اور دولت کمانا ہر شخص کی ضرورت ہے لیکن مقصدِ حیات اس Output کانام ہے جو منفرد ہوتی ہے، اس لیے کہ ہر انسان نے کچھ نہ کچھ اس کائنات میں لازم کرنا ہے۔

مقصدِ حیات کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

مقصدِ حیات کو حاصل کرنے کی طرف جب ہم سفر کرتے ہیں تو محققین اور فلاسفہ نے اس کی دو جہات بیان کی ہیں:

1۔ ظاہری جہت

2۔ باطنی جہت

مقصدِ حیات کی ظاہری جہت کا تعلق اس دنیا کے اندر کردار ادا کرنے سے ہے جبکہ باطنی جہت کا تعلق آخرت سے ہے۔ ان دونوں جہات کا آپس میں ربط کا ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ دو الگ سمتوں میں رہیں تو انسان ذہنی مشقت کا شکار رہتا ہے اور انسان کئی بار دوہری شخصیت (Split personality) کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر وہ دنیا کی زندگی کسی اور مزاج پر جیتا ہے اور آخرت کا مقصد کسی اور انداز سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر مقصدِ حیات کی ظاہری اور باطنی جہت کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوجائے تو انسان کی زندگی بہت آسان ہوجاتی ہے، انسان کا سفر بہت آسان ہو جاتا ہے اور وہ سرعت کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے کیونکہ تمام تر صلاحیتیں اب ایک نہج اور ایک راستے پر صرف ہو رہی ہیں لیکن اگر مقصدِ حیات کی یہ دونوں جہات الگ الگ سمتوں پر ہوں تو انسان مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے اور کئی طرح کے ڈپریشنز میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ جب دھیان دو الگ الگ علاقوں پر ہو تو آخرت کے مقصد کے حصول کے لیے انسان کو اپنی توجہ ظاہری مقصد سے ہٹا کر آخرت کی طرف کرنا پڑے گی اور دنیا کے حصول کے لیے توجہ کو باطنی جہت سے ہٹا کر دنیا کی طرف کرنا پڑے گی۔ نتیجتاً اسی تبدیلی میں ہی اس کے وقت کا ضیاع ہوتا چلا جائے گا۔

اگر کوئی مقصد حیات کے حصول کے لیے ایک ایسا راستہ اپنا لے جو اللہ رب العزت کی بندگی والا راستہ بھی ہو اور اسی راستے سے دنیا کے مقاصد کا حصول بھی میسر آرہا ہے یعنی دنیا اور آخرت ساتھ ساتھ بنتی چلی جا رہی ہے تو پھر اس راستے پر اس کی رفتار دو گنا ہوجاتی ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے۔ اس موبائل کی ایک بیٹری ہے۔ اگر ہم اسے چارج کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میری بیٹری 100 فیصد ہے۔ اب یہ ہماری مرضی پر منحصر ہے کہ اسے ہمیں ضروری کالز کے وقت استعمال کریں تاکہ بیٹری اس مقصد کے لیے زیادہ عرصہ تک موجود رہے اور چاہیں تو سوشل میڈیا، میچز، ڈرامے یا دیگر کلپس دیکھ دیکھ کر اسے اس قدر جلد ختم کردیں کہ ضروری کالز کرنے اور سننے کے لیے بھی یہ ہمیں میسر نہ رہے۔

اسی طرح ہماری حیات بھی ایک بیٹری ہے۔ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو اس کی بیٹری 100 فیصد ہوتی ہے، جو آہستہ آہستہ خرچ (Consume) ہوتی جا رہی ہے اور بالآخر اسے زیرو ہوجانا ہے۔ ہمارا مقصدِ حیات دونوں طرح کا ہے۔ اس کی ظاہری جہت بھی ہے اور باطنی جہت بھی ہے۔ ان دونوں جگہ پر انسان کو کامیاب ہونا ہے۔ اب اگر ہم اپنی بیٹری کو احتیاط سے استعمال نہیں کرتے تو نقصان سے دوچار ہوں گے۔ اگر 100 فیصد بیٹری اسی دنیا کی ضروریات کے لیے خرچ کر دیں تو جب آخرت میں جانے کا وقت آئے گا تو بیٹری زیرو ہوگی اور وہاں کے لیے کچھ نہیں بچا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں خسارہ ہی خسارہ ہو گا کیونکہ 100 فیصد بیٹری دنیا کے امور پر خرچ کر دی۔

کچھ سمجھدار لوگ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بیٹری لائف کو احتیاط سے تقسیم کرتے ہیں۔ اس کا 50 فیصد دنیا میں خرچ کرتے ہیں اور 50 فیصد ان امور پر خرچ کرتے ہیں جس سے براہِ راست آخرت ملا کرتی ہے۔ ان کی طرف اشارہ قران مجید کی اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ.

(البقرہ، 2: 201)

’’ اور انہی میں سے ایسے بھی ہیں جو عرض کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ ‘‘

ان لوگوں کو دنیا کی خیر بھی میسر آتی ہے اور آخرت کی خیر بھی ان کے دامن میں ہوتی ہے۔ یہ لوگ کامیاب ہیں اور اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہوگئے۔ ان کے مقابلے وہ لوگ جنہوں نے 100 فیصد دنیا پر خرچ کر دیا اور آخرت کے لیے کچھ نہ کیا، وہ آخرت میں فیل ہوگئے۔ 50 فیصد دنیا کے امور پر اور 50 فیصد آخرت کے امور پر خرچ کرنے والوں نے دنیا بھی اچھی کر لی اور آخرت بھی اچھی کر لی اور دونوں امتحان اوسط نمبر (Average numbers) کے ساتھ پاس کیے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کی بیٹری کی ٹوٹل انرجی کا 50 فیصد دنیا پر لگایا اور 50 فیصد آخرت پر لگایا۔

جو جس قدر اپنی زندگی کی بیٹری کا استعمال دنیا کے لیے کرے گا، وہ اسی قدر آخرت میں خسارے کا سامنا کرے گا اور جو جس قدر زندگی کی بیٹری کا استعمال آخرت کے لیے کرے گا، وہ اسی قدر اللہ کی بارگاہ سے فضل و کرم پائے گا۔

کچھ لوگ ان سے بھی زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری آخرت تو نہ ختم ہونے والی ہے تو کیوں نہ ہم اپنی زندگی کی بیٹری کا 40 فیصد دنیا پر خرچ کریں اور 60 فیصد آخرت کے لیے خرچ کریں۔ وہ نصف نصف والوں سے زیادہ بہتر ہوگئے۔

کچھ ان سے بھی زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم 30 فیصد دنیا کے لیے خرچ کریں گے اور 70 فیصد آخرت کے لیے خرچ کریں گے۔ اب آخرت میں ان کا درجہ بلند ہوگیا کیونکہ انہوں نے زندگی کی بیٹری کا 70 فیصد آخرت کے لیے صرف کر دیا۔

کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کی بیٹری کا صرف 10 فیصد دنیا کے لیے خرچ کرتے ہیں اور 90 فیصد اپنی حیات کی بیٹری آخرت میں کامیابی کے کاموں کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ یہ لوگ A+میں چلے جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بروزِ قیامت نور کے منبروں پر نظر آئیں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت یہ ساری خیر برابر کیوں نہیں تقسیم کرتا کہ دنیا بھی بہت اچھی ہوجائے اور آخرت بھی بہت اچھی ہو جائے۔۔۔ دنیا میں بھی کمال درجے کے رئیس ہوجائیں اور آخرت میں بھی بڑے رئیسوں میں شمار ہوجائے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کی بلکہ ہم نے خود ہی پیدا کی ہے۔ ہم چاہیں تو اپنی زندگی کی بیٹری کو 100 فیصد دنیا کے لیے خرچ کردیں اور چاہیں تو 100 فیصد آخرت کے لیے خرچ کردیں۔ جو جس قدر اپنی زندگی کی بیٹری کا استعمال دنیا کے لیے کرے گا، وہ اسی قدر آخرت میں خسارے کا سامنا کرے گا اور جو جس قدر زندگی کی بیٹری کا استعمال آخرت کے لیے کرے گا، وہ اسی قدر اللہ کی بارگاہ سے فضل و کرم پائے گا۔

اللہ رب العزت نے انسان کے لیے کوئی بھی ایسا مقصد نہیں رکھا جسے پورا کرنا انسان کے بس کی بات نہ ہو۔ اگر ہم کسی ایسی چیز کو مقصد سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جس کو حاصل کرنا یا مکمل کرنا، ہمارے بس میں نہیں تو وہ یقیناً طبیعت کا شاخسانہ ہوسکتا ہے، جبلت کا تقاضا نہیں۔

انسان کی زندگی ایک محدود بیٹری لائف کی مانند ہے، جسے یا تو مکمل طور پر دنیاوی کامیابی کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے یا پھر اسے دنیا اور آخرت کے درمیان متوازن طور پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ اپنی تمام تر توانائیاں صرف دنیاوی ترقی پر لگا دیتے ہیں، وہ بظاہر دنیا میں ترقی کرتے نظر آتے ہیں، لیکن آخرت میں خالی ہاتھ ہوں گے۔ جبکہ جو لوگ اپنی زندگی کو دنیا کی ضروریات کو بھی پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور آخرت کی تیاری کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، وہ دونوں جہانوں میں کامیاب رہتے ہیں۔ یہی ایک معتدل اور کامیاب زندگی کا راستہ ہے۔

دنیا اور آخرت کے درمیان توازن رکھنے یا مکمل طور پر کسی ایک کا انتخاب کرنے کا ممکنہ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اللہ نے ہر انسان کو ایک محدود زندگی دی ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی توانائی اور وقت کو کہاں خرچ کرتا ہے۔ جو لوگ اپنی ساری توانائیاں اور وقت دنیاوی ترقی، مال و دولت، شہرت اور آرام و آسائش کے لیے وقف کر دیتے ہیں، وہ ظاہر ہے کہ دنیا میں بہت زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ ان کی ترقی دوسروں کے مقابلے میں دوگنا یا کئی گنا زیادہ ہوتی ہے لیکن آخرت میں وہ خالی ہاتھ ہوں گے کیونکہ انہوں نے وہاں کے لیے کچھ بھی ذخیرہ نہیں کیا۔ یہ ایک خسارے کا سودا ہوگا۔

کچھ لوگ اپنی زندگی کو متوازن رکھتے ہیں۔ وہ 50 فیصد دنیا پر اور 50 فیصد آخرت کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ان کی دنیاوی ترقی شاید اتنی زیادہ نہ ہو جتنی 100 فیصد دنیا پر خرچ کرنے والوں کی ہوتی ہے، لیکن وہ ایک اوسط زندگی گزارتے ہیں، جہاں ان کی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں اور آخرت کا ذخیرہ بھی بنا رہتا ہے۔ ان کے لیے نہ دنیا میں پریشانی ہونی چاہیے اور نہ آخرت میں، کیونکہ انہوں نے خود ایک سمجھوتہ کر لیا ہے۔

وہ لوگ جو تقریباً پوری زندگی آخرت کے لیے وقف کر دیتے ہیں وہ دنیاوی ترقی میں کمزور نظر آتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنی ساری توانائیاں آخرت کے لیے وقف کر دی ہوتی ہیں، اور وہاں وہ بہت زیادہ کامیاب ہوں گے۔

یہ فیصلہ ہر انسان کو خود کرنا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کیسے تقسیم کرتا ہے۔ یہی شعور اور فیصلہ سازی انسان کی اصل آزمائش ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں سے کتنا حصہ کس کے لیے رکھتا ہے۔ پس اس حوالے سے ہمارے اذہان میں یہ تشویش پیدا نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ نے خیر تمام لوگوں میں برابر تقسیم کیوں نہیں کی۔ یاد رکھیں یہ سودا ہم نے خود کیا ہے۔ کسی نے دنیا و آخرت دونوں حصے دنیا میں ہی طلب کرلیے، کسی نے ایک حصہ دنیا میں ہی طلب کرلیا مگر ایک حصہ آخرت کے لیے رکھا۔ کسی نے دنیا کا حصہ کم رکھا اور آخرت کے لیے زیادہ رکھا اور کئی ایسے بھی ہوئے اور ہیں جنھوں نے دنیا سے 10 فیصد طلب کیا اور 90 فیصد حصہ آخرت کے لیے رکھ دیا۔ یہ کامیاب ترین لوگ ہیں۔ یہ دنیا میں کمزور، فقیر اور خستہ حال نظر آئیں گے اور دنیا دار انھیں اپنی مجلسوں میں نہ بٹھائیں گے لیکن وہ ان سے بے نیاز ہوں گے۔

اسی مقصدِ حیات کا شعور اللہ تعالیٰ جنھیں عطا کر دیتا ہے اور جنھیں لگن، شوق، جذبہ اور عشق کی آگ نصیب ہوجاتی ہے، وہ بڑی بڑی کامیابی کی منازل پر بھی بیٹھ کر بھی تڑپتے رہتے ہیں، ان کی روح بے قرار رہتی ہے اور وہ ہمیشہ سوچتے رہتے ہیں کہ کہیں کچھ غلط نہ ہوجائے۔

(جاری ہے)