قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادیؒ مشعل ہدایت و روحانیت

جب دل تاریک ہوجائیں، روحیں زنگ آلود ہو جائیں، دلوں کی دھڑکنیں مادیت میں دفن ہو جائیں، دنیا کی چکاچوند روح کو اندھا کرنے لگے، الفاظ کھوکھلے ہو جائیں اور اعمال دکھاوے کا شکار ہو جائیں، تب اہلِ دل کی نگاہیں ایسے چراغوں کی تلاش میں رہتی ہیں جو ان کے باطن کو روشن کر دیں۔ اس صورتِ حال میں اہلِ باطن کا وجود روحانی پناہ گاہ بن کر اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ ایسی ہی ایک باوقار، متوازن اور پاکیزہ ہستی کا نام حضور پیر سیدنا طاہر علاءالدین القادری الگیلانی البغدادیؒ ہے، جنہیں بجا طور پر ’’قدوۃ الاولیاء‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادیؒ کی ذات بھی ایسا ہی نورانی چراغ تھی، جو شریعت و طریقت، معرفت و حقیقت اور تصوف و سلوک کے حسین امتزاج کا مظہر تھی۔

قدوۃ الاولیاء کا شمار ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جن کا علم، کردار اور روحانیت ہمیشہ کے لیے امتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ ہدایت ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب سیدنا غوث الاعظمؓ سے ملتا ہے، جو آپ کی روحانی عظمت اور فقیری کی شان کو مزید نکھارتا ہے۔ آپ کا نسب 16 واسطوں سے سیدنا غوث الاعظمؓ اور 28 واسطوں سے حضور نبی اکرم ﷺ تک جاملتا ہے، جو آپ کی روحانی نسبت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ صرف ایک نسبی تعلق نہیں بلکہ روحانی ذمہ داری کا بوجھ تھا، جو آپؒ نے پوری زندگی انتہائی حسن و خوبی سے نبھایا۔ اس حسب و نسب کی بلندی پر سیرت کی پاکیزگی، خلقِ عظیم اور روحانیت کی فراوانی گویا اس چشمۂ نور کی وسعتوں میں اضافہ کررہی تھی۔

برصغیر پاک و ہند کو یہ سعادت حاصل رہی ہے کہ یہاں حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے روحانی فیوض و برکات کا سلسلہ آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی پہنچنا شروع ہو گیا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق، آپ کے فرزندِ ارجمند حضرت سیدنا عبدالرزاقؒ نے سب سے پہلے ہندوستان کا سفر کیا اور کچھ عرصہ یہاں قیام کے بعد بغداد شریف واپس تشریف لے گئے۔ ان کے بعد سے لے کر آج تک، اس خطے کے اہلِ دل، مشائخ، اولیاء، صلحاء، امراء اور عامۃ الناس بغداد کی جانب روحانی رہنمائی اور فیض کے حصول کے لیے سفر کرتے رہے ہیں۔ ہر دور میں صاحبِ بصیرت افراد نے حضور سیدنا غوث الاعظمؒ کی اولاد کو ہندوستان آنے کی دعوت دی اور خاندانِ گیلانیہ کے بزرگ وقتاً فوقتاً یہاں تشریف لاتے رہے۔ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادیؒ کی پاکستان میں تشریف آوری اور سکونت بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔

آپؒ کا تعلق ایک ایسے جلیل القدر خاندان سے تھا جو مشائخ اور نقباء پر مشتمل تھا۔ اس خانوادے سے فیض کی روشنیاں عالمِ عرب سے نکل کر مشرقِ بعید، یورپ، افریقہ اور امریکہ تک پھیلیں۔ اس روحانی سلسلے کا اصل منبع اور سرچشمہ آپ کے جدِ امجد، حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کی ذاتِ گرامی تھی، جہاں سے آج بھی دنیا بھر کے طالبانِ حق فیض حاصل کرتے ہیں اور قیامت تک اس مرکزِ انوار کی خیرات جاری رہے گی۔

قدوۃ الاولیاءؒ بغدادِ مقدس میں پیدا ہوئے اور اپنے بزرگوں کی روحانی تربیت میں پروان چڑھے۔ بعد ازاں آپ کو براہِ راست اپنے والدِ گرامی حضرت شیخ محمود حسام الدین الگیلانیؒ سے خلافت و اجازت ملی۔ یہی وہ بابرکت ماحول تھا جہاں قلبی سکون، معرفتِ الہٰیہ، ذکر و فکر، اور خدمتِ خلق کے چراغ جلتے تھے۔ یہی وہ نور تھا جو بعد میں برصغیر پاک و ہند کے لاکھوں دلوں کی تاریکی مٹا گیا۔ تصوف کی تعلیم میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ سالک اپنے شیخِ کامل سے جڑ کر تربیت پائے، کیونکہ روحانی تربیت محض کتب بینی کا نام نہیں، بلکہ سلوک کے راستے پر مجاہدہ، مجاہدے میں اخلاص، اور اخلاص میں فنا ہونا لازمی امر ہے اور یہی روشنی آپ کو اپنے والد کی تربیت سے ملی۔

باطنی جلا اور ظاہری جاذبیت

حضور قدوۃ الاولیاءؒ کی مجلس میں بیٹھنا گویا اللہ کی یاد میں مستغرق ہونا تھا۔ آپؒ کی شخصیت میں جاذبیت، متانت، خاموشی میں گفتگو، اور نگاہوں میں ایک عجیب سا وقار ہوتا۔ نہایت کم گو، مگر جب لب کشا ہوتے تو گویا دلوں میں نور اُترتا۔ آپؒ کا اندازِ نشست، لباس، گفتگو، حتیٰ کہ خاموشی بھی صوفیانہ تربیت کا آئینہ تھی۔ آپؒ کی مجالس میں بیٹھنے والے اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ قدوۃ الاولیاءؒ کو دیکھ کر دل خودبخود ذکرِ الہی میں محو ہو جاتا تھا۔ بلا شبہ یہ ایک کامل ولی کی پہچان ہے او راسی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے آقا علیہ السلام نے بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نیک بندے وہ ہیں :

اذا رؤوْا ذکر اللہ.

جب انھیں دیکھا جائے تو اللہ یاد آ جائے۔

حضور قدوۃ الاولیاءؒ کا ظاہری شرف تو خاندانِ گیلانیہ کی امتیازی حیثیت کی بدولت نمایاں تھا، لیکن جو چیز انہیں ’’قدوۃ الاولیاء‘‘ بناتی ہے، وہ ان کا حضور غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات میں فنا ہونا ہے۔ یہی عمل آپؒ کو تصوف کے اعلیٰ مدارج پر فائز کرتا ہے۔ آپؒ کی شخصیت کی یہ روحانی بلندیاں ہی آپؒ کو ہر دور میں اللہ کے اولیاء میں ممتاز کرتی ہیں۔ آپ مریدین سے فرمایا کرتے:

’’تم غوث الاعظمؓ کے مرید ہو گئے ہو، یہ معمولی بات نہیں، اب ہر لمحہ تمہیں اس نسبت کا حق ادا کرنا ہے۔ ‘‘

یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو تصوف میں ‘’نسبتِ خاصہ’‘ کہلاتا ہے اور جس کے ذریعے سالک اپنی ذات کی حدود سے نکل کر ذاتِ شیخ اور پھر ذاتِ مصطفی ﷺ میں فنا ہونے لگتا ہے۔ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدینؒ اس منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں ان کی ہر سانس اطاعتِ الہٰی اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ میں ڈھل چکی تھی۔ آپ کی پوری زندگی حضور ﷺ کی محبت اور عقیدت سے آراستہ تھی۔ آپ کا ہر قدم، ہر عمل اور ہر قول اللہ اور اس کے محبوب ﷺ کے راستے پر تھا۔

علم، حکمت اور بصیرت

علمِ شریعت کے ساتھ ساتھ آپ کو علمِ لدنی سے بھی سرفراز کیا گیا تھا۔ جب کوئی علمی یا فقہی مسئلہ سامنے آتا تو آپؒ کا استحضار، توازن، اور فہم حیرت انگیز ہوتا۔ تصوف میں علم کو نور کہا گیا ہے، جو دل کو وسعت دیتا ہے اور عمل کو اخلاص بخشتا ہے۔ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدینؒ کی گفتگو میں یہی نور موجزن ہوتا، جو سامع کے دل میں اُتر جاتا۔ آپؒ کی شخصیت میں ایک خاص تاثیر تھی، جس سے ہر شخص متاثر ہوتا۔ آپ کی باتوں میں ایسی تاثیر تھی کہ آپؒ کے الفاظ سن کر لوگوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان پیدا ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ آپؒ کی مجالس میں لوگ نہ صرف روحانی فیض حاصل کرتے بلکہ ان کی زندگی کے حالات بھی بہتر ہو جاتے۔ اولیاء اللہ کی اکثریت کو اللہ تعالیٰ ایسے لدنی اور وہبی علوم عطا فرماتا ہے کہ ان کے سامنے علومِ ظاہری کے مجتہد اور فقیہانِ عصر تاب نہ لاسکتے۔

شانِ استغناء اور بے نیازی

اولیاء کی شان ہوتی ہے کہ وہ مخلوق سے بے نیاز ہو کر خالق سے جُڑ جاتے ہیں۔ حضور پیر صاحبؒ کی سیرت اس وصف کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ نہ حکومتوں سے توقع، نہ مالداروں سے حاجت بلکہ فقط اللہ اور اس کے محبوب ﷺ پر کامل توکل۔

تصوف کی تعلیم یہی ہے کہ جو اللہ کا ہو جائے، اللہ سب کچھ اس کا کر دیتا ہے۔ آپؒ کی زندگی کا یہ پہلو آج کے دور میں خاص طور پر قابلِ تقلید ہے۔

سلوک و طریقت کی روشنی

تصوف ایک عمل ہے، محض الفاظ نہیں۔ تصوف کا جوہر ’’فنا‘‘ ہے، یعنی نفس کی نفی، ارادے کی قربانی، اور خواہشات کا ضبط۔ قدوۃ الاولیاءؒ کی زندگی اس حقیقت کی روشن دلیل ہے۔ ایک موقع پر آپؒ نے فرمایا:

’’ام الوظائف تو یہ ہے کہ اعمال ریا سے خالی ہوں۔ خالق سے نظر ہٹ کر مخلوق پر جم جانا بلکہ مخلوق کا وجود تسلیم کرنا ہی ریا ہے اور یہی وہ شرک ہے جس کو رات کی تاریکیوں میں چیونٹیوں کے رینگنے سے زیادہ باریک اور نازک بتایا گیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہی ہے کہ اپنے آپ سے بھی بے نشان ہوجائے اور دوسروں سے بھی۔ ریا کے حملے بڑے باریک ہوتے ہیں۔ کبھی تواضع کے نام پر ریا شامل ہوجاتی ہے۔ ‘‘

آپ کی تربیتی مجالس میں نفیِ نفس، تسلیم و رضا، ذکرِ قلبی اورتعلق مع اللہ پر خاص زور دیا جاتا۔ کئی افراد کی زندگی محض آپ کی کیمیانہ نگاہ سے بدل گئی اور یہی اہلِ تصوف کی اصل پہچان ہے۔ قدوۃ الاولیاءؒ کی روحانیت کا اصل مقصد اللہ کی رضا کی جستجو تھا۔ آپ کی تصوف و روحانیت کی تعلیمات میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا جاتا کہ ایک انسان کا تعلق اس کے رب سے مضبوط ہو اور اس تعلق کے نتیجے میں انسان کا قلب ہر قسم کے مادیت سے آزاد ہو جائے۔ آپ نے اپنے پیروکاروں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ صرف اللہ کے در پر سجدہ ریز رہیں اور تمام دنیاوی لذتوں سے بے نیاز ہو کر اپنے رب کی رضا کی تلاش میں کھوجائیں۔ آپ فرماتے:

’’روحانیت سے مراد لوگوں کی ایسی اخلاقی اور روحانی تربیت ہے جس سے ان کے دلوں میں صدق اور اخلاص پیدا ہو۔ خشیتِ الہٰی اور محبتِ رسول ﷺ پیدا ہو۔ تقویٰ پرہیزگاری اور ذوق پیدا ہو اور انھیں رذائل سے پاک کیا جاسکے۔ دلوں میں نفاق، حسد، بغض، عناد اور ریاکاری ہو تو پھر کوئی عمل بھی نیکی کا اجر نہیں پاسکتا۔

تصوف لوگوں کی دنیا سے الگ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرنے کا درس نہیں دیتا بلکہ بڑے بڑے عظیم صوفیاء نے مسندِ ارشاد پر بیٹھ کر بھی دین اسلام کی خدمت کی اور میدان جہاد میں بھی دین اسلام کی خدمت کی۔

تصوف؛ شریعت کے ظاہرو باطن دونوں کو یکجا کرنے کا نام ہے۔ لہذا صوفیائے کرام کی خدمت اور جدوجہد بھی ایسی ہونی چاہیے کہ وہ دین اور شریعت کے کسی ایک پہلو کی نہیں بلکہ دونوں پہلوؤں کی بیک وقت تازگی کا سامان کرے چونکہ صوفیاء کا پیغام نہ صرف منافرت، فرقہ پروری اور تعصب و انتشار سے پاک ہوتا ہے بلکہ ان کا پیغام سراسر محبت اور شفقت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی کاوشیں عالمِ اسلام میں اتحاد کا باعث بن سکتی ہیں اگر یہ اپنا صحیح کردار انجام دیں تو ان کے ہاتھوں اسلام اور عالمِ اسلام کی وہ انقلابی خدمت ہوسکتی ہے جو کسی اور طبقے کے ہاتھوں ممکن نہیں۔ ‘‘

آپ کا مذکورہ فرمان تصوف و روحانیت کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ ایک سالک کو اپنی روحانی ترقی کی کوشش کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے، اسی صورت وہ اللہ کے نزدیک کامیاب ٹھہرتا ہے۔

شریعت و طریقت کا حسین امتزاج

حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدینؒ نے کبھی شریعت کو طریقت سے جدا نہیں ہونے دیا۔ آپؒ کا پیغام ہمیشہ شریعت و طریقت کے حسین امتزاج پر مبنی تھا۔ آپ نے اپنی زندگی میں دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا۔ آپ نے فرمایا:

’’شریعت کسی بھی حال میں کسی شخص سے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو، ساقط نہیں ہوسکتی اور اس کی تعمیل ہر حالت میں فرض ہے۔ پس حقیقت سےمراد باطنی اور حقیقی صفات کی تکمیل اور تزکیہ قلب اور مخالفتِ نفس ہے جو تصوف کا بنیادی منشا ہے۔ شریعتِ مجاہدہ ہے اور ہدایت و مشاہدہ اس کی حقیقت ہے جو باالفاظ دیگر ظاہر کی باطنی رہنمائی ہے۔ جب مجاہدہ نہ ہوگا تو مشاہدہ کہاں سے ملے گا۔ جب شریعت ترک کردی جائے گی تو حقیقت کے وارد ہونے کے کیا معنی؟ لہذا شریعت اگر ایک دینی چیز ہے توحقیقت سراسر دینی۔ جب حقیقت نے آخری دم تک شریعت کے احکام سے کسی حکم کو نظر انداز نہیں کیا تو صرف باطنی نماز اور روزہ کا سبق دینے والے اور شریعت پر عمل نہ کرنے والے پیر نہیں بلکہ ملحد، کافر، بے دین، عیش پرست، تن اور شہوت پرست ہیں جو سادہ لوح مسلمانوں کا گنہگار بنارہے ہیں۔ ‘‘

آپؒ کی نظر میں روحانیت صرف عبادات اور ذکر و اذکار تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ ایک عملی زندگی کا حصہ تھی جو ہر فرد کے کردار میں نظر آنی چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی روحانی تعلیمات میں انفرادی عمل کے ساتھ ساتھ معاشرتی اصلاح کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ آپ کے معمولات میں فرائض و نوافل کی ادائیگی قرآن کی تلاوت اور اورادِ قادریہ کا باقاعدہ اہتمام شامل تھا۔ آپ ؒ کی زندگی گویا متوازن روحانیت کا مظہر تھی، جہاں نہ افراط نہ تفریط، بلکہ اعتدال اور حضورِ قلب کا کامل امتزاج تھا۔

سلسلۂ قادریہ کی سرپرستی

آپ نے سلسلہ قادریہ کی سرپرستی کا جو فریضہ سرانجام دیا، اس سے اس عظیم سلسلے کی ترقی و کامیابی میں مزید اضافہ ہوا۔ آپ کی رہنمائی سے ہزاروں افراد نے روحانیت کی منازل طے کیں اور اللہ کے قریب پہنچے۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ یہ کوشش کی کہ عوام الناس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں محو رکھا جائے۔ اسی کی بدولت آپ کا فیض دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔ آپ نے یورپ، ایشیا، افریقہ، امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں دورے کیے اورسلسلہ قادریہ کا روحانی پیغام عام فرمایا۔ لاکھوں مریدین نے بالمشافہ یا خط و کتابت کے ذریعے آپ سے روحانی رہنمائی حاصل کی۔ یہ عالمی دعوت تصوف کے اس اصول کی عکاس تھی کہ محبت کی حدود نہیں ہوتیں اور ولایت کی خوشبو سرحدیں نہیں مانتی۔

عصرِ حاضر میں تصوف کی تصویر

قدوۃ الاولیاءؒ کی سیرت آج کے دور میں ایک نمونہ ہے۔ وہ دور جہاں روحانیت دکھاوے کا شکار ہو چکی ہے اور طریقت محض ظاہری رسوم تک محدود ہو چکی ہے، اس دور میں آپؒ نے اپنے عمل سے تصوف کو زندہ کیا۔ آپؒ کا طریقہ سادہ، مگر دل میں اترنے والا تھا۔ نہ نعرے، نہ شور، نہ سیاسی خطاب بلکہ خاموشی میں تاثیر اور نگاہ میں وہ تاثیر کہ بندہ بدل جائے۔ آپ مریدین سے کہتے:

’’بزرگ بننا ہو، قطب بننا ہو، غوث بننا ہو تو کہیں اور جاؤ اور انسان بننا ہو تو یہاں آؤ۔ پہلے آدمی بنو، کیا بزرگی ڈھونڈتے پھرتے ہو؟ آدمیت سیکھو، بزرگی تو ایک دن میں ساتھ ہولیتی ہے، مشکل چیز تو شرافت اور شعور انسانیت ہے۔ ‘‘

یہ پیغام آج بھی امت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ہماری نجات نہ جدید نعروں میں ہے، نہ محض معلومات میں بلکہ اتباعِ سنت، اخلاص، اور ذکرِ الٰہی میں ہے، جو قدوۃ الاولیاء حضور پیر صاحبؒ کی سیرت کا نچوڑ ہے۔ آج جب روحانیت نمائشی بنتی جا رہی ہے، سیرتِ قدوۃ الاولیاءؒ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تصوف محض مخصوص لباس یا الفاظ کا نام نہیں، بلکہ یہ دل کی زمین پر اخلاص، استغنا، علم، عمل اور فنا کی فصل اگانے کا نام ہے۔ تصوف سیکھنے کے لیے کتابیں ضروری ہیں، لیکن اولیاء کی صحبت اس سے کہیں زیادہ اہم ہے اور اگر صحبت نہ ملے تو ان کی سیرت پڑھنا، ان کی تعلیمات کو اپنانا اور ان کے فیضان سے جُڑنا ضروری ہے۔ قدوۃ الاولیاءؒ کی زندگی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ خاموش رہ کر بھی اللہ کا پیغام پہنچایا جا سکتا ہے، اگر دل نور سے بھرا ہو اور نگاہ اخلاص سے مالا مال ہو۔

حضور پیر سیدنا طاہر علاءالدین الگیلانیؒ کی زندگی ایک مشعلِ ہدایت و روحانیت ہے، جس نے لوگوں کو روحانیت کی راہوں پر چلنے کی ترغیب دی۔ آپؒ کی تعلیمات نے نہ صرف برصغیر میں بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کے دلوں کو نور سے منور کیا۔ آپ کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ انسان اگر اللہ کے راستے پر ثابت قدم رہے، تو وہ روحانیت، علم اور معرفت کی اعلیٰ منازل پر فائز ہو جاتاہے۔

تعلیمات

ذیل میں حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادیؓ کی تصنیف ’’تذکرہ قادریہ‘‘میں مذکور خطبات و مواعظ میں سے چند تعلیمات درج کی جاتی ہیں:

(1) مسلمان کے لیے لازمی امور

حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے درج ذیل چیزوں کا ایک مسلمان میں ہونا لازم قرار دیا:

1۔ احکام کی پابندی اور تعمیل کرنا

2۔ ان چیزوں سے جن کے لئے اللہ تعالی منع فرماتا ہے، اجتناب کرنا

3۔ قضا و قدر پہ راضی رہنا اور کبھی تقدیر کا شاکی نہ ہونا۔

ان تینوں خصوصیتوں سے کبھی خالی نہ رہنا اسلام کا پہلا درجہ ہے۔ لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان کا پابند رہے اور ہمیشہ اپنے دل میں ان کا خیال رکھے اور ان پر کاربند رہے۔

(2) اسباب کا ترک اور اختیارکرنا

بندہ چونکہ سبب سے پیدا ہوا ہے۔ اس لیے بغیر سبب کے وہ جی نہیں سکتا۔ عالم کو اسباب کی زنجیر میں جکڑا گیاہے۔ اسی لیے اسباب سے ترکِ تعلق کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ بندے کی حقیقت کے منافی ہے۔ البتہ ہاں ایک سبب کو چھوڑ کر دوسرے سبب کو بندہ اختیارکرسکتا ہے۔ اسباب کو ترک کرکے زندگی نہیں گزار سکتا۔ کم از کم سانس لینے سے تو کوئی نہیں بچ سکتا۔ یہ بھی تو سبب ہے۔ اسباب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اسباب کی حیثیت گویا حجاب کی سی ہے۔ جس نے ان اسباب کو حجاب سمجھا، وہ ان ہی اسباب کی راہ سے حق تک پہنچا اور جس نے ان ہی اسباب کو تکیہ بنالیا، وہ محروم ہوا۔

(3) اختلافِ سلاسل کی حقیقت

جس طرح جسمانی صحت حاصل کرنے کے لیے علاج کے مختلف طریقے طب یونانی، ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھک وغیرہ ہیں کہ مقصد سب کا ایک اور طریقے مختلف ہیں۔ اسی طرح باطنی اخلاق و اعمال کے علاج کے لیے طریقت کے یہ سلاسل ان کا مقصد بھی ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمارے باطنی اخلاق، شریعت اور سنت کے سانچے میں ڈھل جائیں۔ البتہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے طریقے مختلف ہیں۔ چاروں سلاسل طریقت؛ نقشبندیہ، سہروردیہ، چشتیہ اور قادریہ یہ سب اپنی اپنی جگہ مسلمہ اہمیت کے حامل ہیں۔ مگر سلسلہ قادریہ کو اس لیے زیادہ بزرگی، عظمت اور شرف حاصل ہے کہ تمام اولیاء کے سردار حضور سیدنا غوث الاعظمؒ اسی سلسلہ سے ہوئے بلکہ آپ ہی کی وجہ سے اس سلسلے کو ’’سلسلۂ قادریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

(4) تعلق باللہ کی حقیقت

اے بندے! تو بہت کہتا ہے کہ اسے نزدیک کیا گیا ہے اور میں دور ہوں۔۔۔ اسے عطا کیا گیا اور میں محروم ہوں۔۔۔ وہ غنی ہے اور میں مفلس ہوں۔۔۔ وہ تندرست ہے اور میں بیمار ہوں۔۔۔ وہ معزز ہے اور میں خوار ہوں۔۔۔ وہ راست باز مشہور ہے اور میں دروغ گو سمجھا جاتا ہوں۔ اے شخص تمھیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ہے اور وحدانیت ہی کو پسند کرتا ہے اور اس کو دوست جانتا ہے جو صرف اسی سے محبت رکھتاہے۔ جب اللہ تعالیٰ تجھے کچھ عطافرماتاہے تو تیری محبت اللہ تعالیٰ کے لئے کم ہوجاتی ہے اور تیرے دل میں اس چیز یا شخص کی رغبت اور محبت بھی پیداہوتی ہے، جس کے ذریعے سے وہ نعمت اللہ تعالیٰ نے تجھے دی اور اس طرح تیرے اندر سے محبت الہی کم ہو جاتی ہے۔ یہ ظاہرہے کہ اللہ تعالیٰ بہت غیور ہے، وہ شریک نہیں چاہتا، لہذا دوسروں کے ہاتھوں کو تیری امداد سے۔۔۔ ان کی زبان کو تیری صفت و ثناء سے۔۔۔ اور پیروں کو تیری طرف آنے سے روک دیتا ہے۔۔۔ تاکہ تو اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کراس بندے کی محبت میں نہ پھنس جائے۔

پس اے شخص بے ادب نہ ہواور اس کی جانب دیکھ جو تجھے دیکھ رہا ہے۔۔۔ اس کی طرف متوجہ ہو جس کی تجھ پر توجہ ہے۔۔۔ اس سے محبت کر جو تجھ سے محبت کرتاہے۔۔۔ اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دے جو تجھے گرنے سے بچالے۔۔۔ اس کا سہارالے جو تجھے سنبھالے۔۔۔ جو تجھے جہالت کی تاریکی سے نکالے۔۔۔ تجھے نجات دے اور تجھے ہلاکت سے بچائے۔۔۔ وہ تجھ سے تیری ناپاکیاں دور کرے گا اور تجھے گندگیوں سے صاف کرے گا۔۔۔ وہ تیری پست ہمتی کو دور کرے گا اور وہ بد حکم دینے والے نفس اور براراستہ دکھانے والے دوستوں سے جو اخوان الشیاطین ہیں اور تیرے اور سعادتوں کے درمیان حجاب ہیں، ان سے تجھے بچائے گا۔

وصال مبارک

23 ذوالقعدہ (بمطابق7 جون 1991ء ) کی صبح قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین الگیلانی القادری البغدادیؒ کی صورت میں روشن آفتاب روحانیت اس فانی دنیا سے غروب ہو گیا مگر اپنے پیچھے ایسی روشنی چھوڑ گیا جو آج بھی قلوب کو منور کر رہی ہے۔ جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن، لاہور میں موجود آپ کا مزار آج بھی تشنگانِ معرفت کے لیے مرجعِ خلائق ہے۔ یہ ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں خاموشی میں بھی نصیحت ہے اور خاموش تربت سے بھی صدائیں آتی ہیں۔ آپؒ کی تعلیمات اور روحانیت آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور قدوۃ الاولیاءؒ کی سیرت سے روشنی لینے اور اسے اپنی عملی زندگی میں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ