دنیا کے سب سے بڑے تنظیمی نیٹ ورک کا رہبر و راہنما

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

معاشرہ، حکومت، ادارے، خاندان، قبیلے ہمارے سامنے سب کے سب ایک تنظیم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ چیزیں معاشرے میں عام ہونے کی وجہ سے منفرد اور جداگانہ اہمیت نہیں رکھتیں بنسبت اس کے کوئی شخص ایک نئے نام اور نئے عنوان سے معاشرے میں کوئی تنظیم کھڑی کردے اور وہ سارے معاشرے میں اور ہر جگہ دکھائی دینے لگے ہمیں اس مضمون کے ذریعے منہاج القرآن کی تنظیم اور اس کے تعارف کو جاننا ہے۔ بلاشبہ تنظیم نظم سے ہے اور نظم کسی چیز کو لڑی میں پرونے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح تنظیم وہ انتظامی ڈھانچہ ہے جس میں افراد کو ایک نظم کے ساتھ ایک تنظیمی لڑی میں پرویا جاتا ہے اور ان سب کی کاوشوں کو اجتماعیت کی صورت دی جاتی ہے اور ان کاوشوں میں ایک نظم پیدا کرکے نتیجہ خیزی کی منزل حاصل کی جاتی ہے اور اس تنظیم کے اجتماعی مقصد کو ترجیحاً حاصل کیاجاتا ہے۔

تنظیم اجتماعی کاوش کو منظم کرنا ہے

تنظیم اپنے اجتماعی نظم میں ایک ’’مالا‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا ہر دانہ اپنی جگہ قائم ہو تو اس مالا و تسبیح کا حسن قائم رہتا ہے۔ ہر دانہ اور ہر موتی مالا و تسبیح کی اپنی حیثیت کو بڑھاتا ہے۔ کسی ایک کی بھی حیثیت اور اہمیت کو کم نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح تنظیم میں ہر فرد کی اپنی اہمیت ہے اور کسی کی اہمیت اور حیثیت کو بھی ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔ سب افراد مل کر تنظیم کا اجتماعی تشخص، اجتماعی شناخت اور اجتماعی اثاثہ بنتے ہیں۔ اگر کسی مالا کے دانے اور موتی بکھر جائیں تو وہ مالا، مالا نہیں رہتی اسی طرح اگر کسی تنظیم کے افراد منتشر ہوجائیں تو اس تنظیم کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ تنظیم معاشرے کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ افراد معاشرہ کو ایک لڑی میں پروئے رکھتی ہے اور ان کو یکجا رکھتی ہے۔ تنظیم کی مثال ایک جسم کی مانند ہے۔ جسم واحد وہ ہے جس میں تمام اعضائے جسم یکجا ہوں جب انسان کے سارے اعضائے جسم یکجا ہوتے ہیں تو یہ انسان احسن تقویم بنتا ہے اور تبھی ولقد کرمنا بنی آدم کے اعزاز کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

افراد کو جسدِ واحد بنانا، تنظیم کا مقصد

حدیث مبارکہ میں تنظیم کی مثال یہ آئی ہے:

المسلمون کجسد واحد.

(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبھائم، ج: 2، ص: 889)

کی صورت میں ہے تمام مسلمان مل کر ایک جسد واحد ہیں۔ تنظیم بھی سب انسانوں کو اکٹھا کرکے جسد واحد بناتی ہے۔ جب سارے جسم مل کر جسد واحد بن جاتے ہیں تو ان کو توڑنا اور ان کو شکست دینا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اکیلے اکیلے شخص کو بآسانی توڑا جاسکتا ہے۔ تنہا تنہا کو بسہولت متزلزل کیا جاسکتا ہے۔ الگ الگ فرد کو بغیر اذیت کے مضطرب کیا جاسکتا ہے مگرجہاں ہر فرد افراد کی صورت اختیار کرلے وہاں ان کو توڑنے اور ان کو پھوڑنے کا عمل آسان نہیں رہتا ہے۔

اجتماعی تشخص کے لیے تنظیم کی ناگزیریت

مسلمانوں میں تنظیمی عمل کی اہمیت کو سمجھانے کے لیے ان کو جسد واحد قرار دے کر مزید واضح کیا ہے۔ اس جسد واحد کے کسی ایک عضو میں تکلیف سارے اعضا جسم کو بے چین اور مضطرب کردیتی ہے۔ ایسے ہی کسی ایک تنظیمی فرد کو تکلیف ساری تنظیم کے افراد کی تکلیف بن جاتی ہے۔ یہ تنظیم ایک قبیلے اور خاندان کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ تنظیم افراد کو ایک خاندان اور ایک قبیلہ بنادیتی ہے۔ خاندان اور قبیلے کے افراد کے دکھ اور سکھ سانجھے ہوتے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کے دکھ اور درد کو سکھ اور خوشی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے اور اس کے دکھ اور سکھ میں شریک ہونا اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہے۔

حبل اللہ کا اعتصام بذریعہ تنظیم

تنظیم ایک رسی کی طرح ہوتی ہے جو افراد معاشرہ کو جوڑے رکھتی ہے۔ تنظیم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے وہ اجتماعی رسی کو بڑی مضبوطی سے پکڑے رکھے، وہ اجتماعی رسی اپنے پکڑنے والوں کو اجتماعی بندھن میں باندھ کر رکھے گی اور ان کو ہر طرح کے حالات میں جوڑے رکھے گی۔ جس طرف اس اجتماعی رسی کو کھینچا جائے گا ہر کوئی اسی کی طرف کھینچتا چلا جائے گا۔ قرآن نے اس اجتماعی رسی کو حبل اللہ کا نام دیا ہے۔تنظیم کی حقیقت کیا ہے اور تنظیمی عمل کی اہمیت کیا ہے۔ قرآن حکیم نے بڑے جامع انداز میں اس آیت کریمہ میں اس حقیقت کو واضح کردیا ہے:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.

(عمران، 3: 103)

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘

تنظیم میں مرکزی نکتہ بحبل اللہ کا ہوتا ہے اور یہ نکتہ تنظیمی زبان میں تنظیمی حکم اور تنظیمی نظم کہلاتا ہے۔

اجتماعی قابلیت کا اظہار بصورتِ تنظیم

اسی تنظیمی عمل کو بلا استثنیٰ ہر ذی شعور نے اختیار کرنا ہوتا ہے۔ جمیعاً میں سب کے سب شامل ہیں۔ جمیعاً کی منزل کا حصول تبھی ہوتا ہے جب سب کے سب کے اپنی انفرادی حیثیت کو اس جمیعاً میں ضم کردیتے ہیں تو تب ہی انفرادی عمل یہ جمیعاً کی صورت میں ڈھلتا ہے۔ اگر ایک دو افراد بھی الگ ہوجائیں اور چند افراد بھی جدا ہوجائیں۔ اگر ایک طبقہ روٹھ جائے اور ایک بہت بڑی تعداد میں ناراض ہوجائے تو اب حقیقی اور واقعی معنی میں جمیعاً کا اطلاق ان پر نہیں ہوسکتا۔ جمیعاً کے لفظ کا تقاضا یہ ہے کہ سب کے سب افراد کو ان کی تمام تر قابلیت اور صلاحیت کے ساتھ اس میں شامل کیا جائے۔ کوئی اپنے انفرادی تشخص اور اپنی انفرادی پہچان کے ساتھ باہر نہ رہے، تو تبھی جمیعاً کا کامل معنوی اطلاق ہوگا۔ جمیعاًصورۃً اور معناً جب ۔کامل ہوگا تو تب ہی یہ بے مثال تنظیم بنے گی۔

اب کسی بھی تنظیم کو جمیعاً کی صورت میں رکھنے کے کیا کیا تقاضے ہیں، کیا کیا درپیش چیلنجز ہیں، کیا کیا مسائل ہیں اور کس قدر رکاوٹیں ہیں اور کتنے تحفظات اور خدشات ہیں۔ اب ان سارے مسائل، سارے چیلنجز اور ساری رکاوٹوں کو دور کرنے کی ذمہ داری اس تنظیم کے سربراہ، امیر، صدر اور سیکرٹری جنرل کی ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری سے کماحقہ سے عہد برآہوسکتا ہے تو وہ اس ذمہ داری کا اہل ہے اور اگر وہ اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرسکتا تو وہ بڑے سے بڑا قابل ہوکر بھی اس ذمہ داری کی اہلیت کاملہ کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے۔ چہ جائیکہ کوئی اس معاملے اور اس مسئلے کو سرے سے ایڈریس ہی نہ کرے تو وہ واقعتاً کسی بھی تنظیم کی امارت اور سربراہی کے لیے نااہل ہے۔

تنظیم، مسلسل نظم کا نام ہے

اب اس حبل اللہ کو جمیعاً کی صورت کیسے دی جائے تو قرآن نے اس کا ضابطہ اور طریقہ بھی سمجھادیا ہے۔ جمیعاً، تنظیم کے ہر فرد کو تنظیمی جذبہ اعتصام کو اپنانا ہوگا۔ تنظیمی تعلق کو مضبوطی کے ساتھ قائم کرنا ہوگا اور اپنی ہر کاوش کو اعتصام بنانا ہوگا اور اپنی ہر تدبیر کو اعتصام کو قوت دینا ہوگی اور اپنی ہر سوچ کو اعتصام کی عملی حقیقت بنانا ہوگا۔ قوت اعتصام کو اپنی سوچ اور فکر پر غالب کرنا ہوگا۔ تب تنظیمی وجود قائم ہوسکے گا۔ اب جمیع کے جمیع افراد کا تعلق بحبل اللہ کے ساتھ اعتصام کی صورت میں ہوگا تو پھر معاشرے میں تفرقے اور تقسیم کا اندیشہ اور خطرہ نہ رہے گا۔ اگر کسی بھی وقت بحبل اللہ کے ساتھ جمیع افراد کا تعلق اعتصام کی کیفیت سے پست ہوجائے گا تو پھر قوم کا مزید تفرقہ اور انتشار میں مبتلا ہونے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔

اب تنظیم ہوگی مگر منتشر ہوگی اب تنظیم ہوگی مگر اس میں قوت نہ ہوگی۔ اب تنظیم ہوگی مگر اس میں اجتماعیت نہ ہوگی۔ اب تنظیم ہوگی مگر یہ جسد واحد نہ ہوگی، اب تنظیم ہوگی مگر کمزور اور لاغر ہوگی۔ گویا یہ تنظیم برائے نام کی تنظیم ہوگی جبکہ حقیقت میں تنظیم تو اپنے وجود میں ایک قوت اور ایک طاقت کا نام ہے۔ تنظیم کے ساتھ تعلق اعتصام میں تمام حائل رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لانا ہوگا۔ تمام ذہنی الجھنوں کو دور رکھنا ہوگا اور تمام شخصی کمزوریوں سے صرف نظر کرنا ہوگا اور تمام طبیعتوں کے یکساں میلان اور عدم میلان کو یکسر بھولنا ہوگا۔ تمام ہم مزاج لوگوں کو اکٹھا کرنا ممکن نہ ہوگا۔ تصور اعتصام پر حملہ تمام تر تحفظات، خدشات اور خطرات کے ساتھ رہنے کا امکان رکھنا ہوگا۔ تبھی کوئی تنظیم، تنظیم بنے گی اور تبھی اس کی شناخت بحبل اللہ کی صورت میں ہوگی اور تبھی اس میں تنظیمی وحدت جمیعاً کی صورت میں دکھائی دے گی۔ اگر یہ کچھ نہیں ہے تو پھر تنظیم بھی تنظیم نہیں ہے۔

تنظیمی ڈسپلن کی بنیاد ’’اطیعوا‘‘ ہے

اسی طرح تنظیمی ڈسپلن کی بنیاد بحبل اللہ کے ساتھ ساتھ ایک اور قرآنی اصطلاح اطیعوا اللہ و رسولہ کی صورت میں بھی ہے۔ کسی بھی تنظیم کا قیام بحبل اللہ پر قائم ہوتا ہے یا قرآنی حکم اطیعوا اللہ اطاعت الہٰی اور واطیعوا الرسول، اطاعت رسول پر استوار ہوتا ہے۔ جب تک تنظیم میں بحبل اللہ کی قوت کارفرما رہتی ہے اور جب تک تنظیم میں اطیعوا اللہ واطعیوا الرسول کی روح محرک بنی رہتی ہے۔ تنظیم اپنے وجود میں مضبوط اور مستحکم رہتی ہے مگر جوں ہی یہ روح تنظیم کمزور ہوجاتی ہے تو پھر تنازعوا کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔تنظیمی اختلافات و تنازعات تنظیمات کو برباد کردیتے ہیں اور تنظیمی جھگڑے تنظیمات کی مثبت سرگرمیوں پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ باہمی اختلافات ہی تنظیمی و تحریکی سرگرمیاں بن جاتی ہیں۔ تنظیم آگے بڑھنے کی بجائے اپنے ہی افراد کے درمیان محصور ہوجاتی ہے۔ یوں تنازعات اور باہمی تحفظات میں الجھ جاتی ہے جس تنظیم میں مقامی جھگڑوں اور باہمی تنازعات کا غلبہ ہو وہ تنظیم اپنے اہداف اور مقاصد میں بری طرح ناکام ہوجاتی ہے۔

تنظیم کی کمزوری کے اسباب

اس کے دو سبب قرآن نے بیان کیے ہیں ایک تو وہ تنظیم فتفشلوا کے عمل میں پھنس جاتی ہے۔ وہ تنظیم کم ہمت ہوجاتی ہے اور اس کی اجتماعی قوت بزدلی کی صورت میں ڈھل جاتی ہے۔ وہ اندر سے ٹوٹنے کی وجہ سے کم قوت کی حامل ہوجاتی ہے اور اپنے اجتماعی اہداف کے حصول میں افراد کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی وجہ سے کمزور ہوجاتی ہے۔ تنظیم اپنے اجتماعی ارادوں اور اہداف میں نظری طور پر قابل مثال ہوتی ہے مگر ان کو عملاً بپا کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے۔ افرادی قوت کی کمزوری اور افرادی قوت کی ٹوٹ پھوٹ سے وہ تنظیم کمزوری اور پستی کا شکار ہوجاتی ہے۔

دوسرا نقصان اس تنظیم کا یہ ہوتا ہے کہ سالہا سال سے اس کا اجتماعی تشخص اہداف کے عدم حصول کے باعث بری طرح مجروح ہوجاتا ہے۔ ان کی اجتماعی قوت بکھرنے سے اس کا مجموعی رعب بھی معاشرے میں ختم ہوجاتا ہے اور یہ تنظیم و تذھب ریحکم کا شکارہوجاتی ہے اور یہ اپنی عظمت کی بجائے اپنی پستی اور اپنی ذلت دیکھتی ہے۔ باہمی کشمکش دوسروں کی نظر میں اس تنظیم کو حقیر بنادیتی ہے۔ نزاعات کا عام ہونا تنظیمی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔

تنظیم اجتماعی طاقت کا نام ہے

جب تنظیم بحبل اللہ اور اطیعوا اللہ ورسولہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتی ہے تو ساری تنظیم میں باہمی اتحاد اور باہمی اعتماد بڑھتا رہتا ہے۔ یوں ساری تنظیم ایک ایک فرد کے ساتھ ایک اجتماعی قوت بن کر کھڑی ہوتی ہے اور اس طرح ایک تنظیمی انسان کے ساتھ ساری جماعت کی طاقت لگ جاتی ہے۔ اس لیے ایک آدمی اور ایک کارکن اپنے اندر ساری تنظیم اور ساری جماعت کی طاقت کو محسوس کرتا ہے اور جب تنظیم میں باہمی اتحاد و اتفاق نہ رہا تو اب ہر تنظیمی آدمی کی قوت بھی اکیلی رہ جاتی ہے اور اب اس کی وہ قوت جو بے شمار افراد کی قوت بنتی تھی وہ تنہائی کا شکار ہوکر اس کو پست ہمت کردیتی ہے۔

اگر معاشرتی و عائلی حقائق پر غور کیا جائے تو ان سب میں تنظیم ہی کی قوت، محسوس اور غیر محسوس طور پر سمائی ہوئی نظر آتی ہے۔ قبیلہ اور خاندان بھی ایک تنظیم کی طرح کام کررہے ہوتے ہیں، عائلی زندگی بھی ایک تنظیمی قوت کی ابتدائی صورت ہے۔ دوست و احباب کا حلقہ بھی ایک تنظیمی قوت کے ساتھ منظم رہتا ہے۔ سماجی و معاشرتی تعلقات اور سپورٹس بھی تنظیمی عمل کے ذریعے پروان چڑھتے ہیں۔ ایک کلاس کا نظام بھی تنظیمی عمل کے ذریعے مستحکم ہوتا ہے۔ گھر کا نظام بھی تنظیمی عمل کے ذریعے احسن صورت میں فروغ پاتا ہے۔ عزیز و اقارب کے ساتھ رشتے اور تعلقات بھی ایک تنظیمی عمل اور اجتماعی نظم کے ساتھ اعلیٰ اور بہتر ہوتے ہیں۔ انسانی حسب بھی ایک تنظیمی عمل کے ذریعے ارتقا کی منزلوں کی طرف بڑھتا ہے اور انسانی نسب بھی ایک نظم کے ذریعے بہتر طور پر جانا جاتا ہے۔

تنظیم عقلمند انسان کے لیے لازم ہے

تنظیم اور نظم انسانی زندگی کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ نظم و تنظیم ہی سارے انسانوں کو اکٹھا کرکے فرد واحد اور جسد واحد کی صورت میں ڈھال دیتے ہیں۔ اب وہ دیکھنے میں بظاہر ایک فرد ہوتا ہے مگر اس کے پیچھے پوری جماعت، ساری تنظیم اور سارے خاندان کی طاقت کھڑی ہوتی ہے۔ تنظیمی عمل کا اختیار کرنا عقلمند لوگوں کاکام ہے، بیوقوف اور احمق لوگ ہمیشہ منتشر اور بکھرے رہتے ہیں اور ہمیشہ بکھرے رہنا اور منتشر رہنا ہی ان کا مقدر ہوتا ہے۔ نظم و ضبط اور تنظیم و انتظامات اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ انفرادی زندگی میں بھی لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کو اپنانا زندگی کو حسین و خوبصورت بنانا ہے اور ان کو ترک کرنا زندگی کی خوبصورتی کو انسانوں سے دور کرنا ہے ۔ انسان کا سب سے مضبوط عمل اور احسن عمل اور سب سے خوبصورت عمل ہی تنظیمی عمل ہے۔ یہ عمل ہی انسان کی شخصیت کو چار چاند لگاتا ہے۔ اس حوالے سے رسول اللہﷺ کا فرمان ہمیں بہت زیادہ راہنمائی دیتا ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان الله تعالیٰ یحب عمل احدکم عملاً ان یتقنه.

(شعب الایمان، باب فی الامانات ومایحب من ادائھا الی اهلھا، ج: 7، ص: 232)

باری تعالیٰ تمھارے ہر کام میں یہ پسند کرتا ہے کہ اسے عمدگی اور سلیقہ سے کیا جائے۔

تنظیم شعور و سلیقہ دیتی ہے

سلیقہ مندی کا کام ہی تنظیمی کام ہے، بدنظمی اور بدسلیقی، بدانتظامی ہی کسی بھی انسانی کام کو خراب کرتی ہے۔ اسی طرح قرآن ہمیں ہر کام کو نظم و ضبط، بہتر انتظام و انصرام اور اعلیٰ ترتیب و تہذیب کے ساتھ انجام دینے کی طرف یوں متوجہ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالصّٰفّٰتِ صَفًّا.

(الصافات، 37: 2)

’’قسم ہے قطار در قطار صف بستہ جماعتوں کی۔‘‘

اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں ہم یہ جانتے ہیں کہ ہر کام میں نظم و ضبط اور ترتیب و سلیقہ کا لحاظ رکھنا دین میں مطلوب ومقصود ہے اور باری تعالیٰ کو انسانوں کا وہ کام جو سلیقے و طریقے سے اداکیا جائے وہ بہت زیادہ پسند ہے۔ باری تعالیٰ کے سارے احکام و اوامر بھی ہمیں سلیقہ و طریقہ اور نظم و تنظیم اور ہر کام کی احسن بجا آوری کا اسلوب ہی سکھاتے ہیں۔ اب یہاں یہ بھی ممکن تھا کہ فرشتے صف باندھنے کی بجائے اور صف در صف ہونے کی بجائے منتشر انداز میں جمع ہوجاتے ہیں لیکن اس سے بدنظمی ظاہر ہوتی۔

اس لیے صف بندی کے تنظیمی عمل کو باری تعالیٰ نے بہت زیادہ پسند کیا ہے۔ انسانوں کے اچھے اوصاف میں سے سب سے پہلا وصف نظم و ضبط کی پابندی ہے اور یہ نظم و ضبط ہی کسی فعل کو موثر اور نتیجہ خیز بناتا ہے۔ بدنظمی سے بے برکتی آتی ہے اور یہ رفع خیر اور رفع رحمت کا سبب ہے۔ اس لیے اعلیٰ انسانی نظم و انتظام کو باری تعالیٰ بہت زیادہ پسند کرتا ہے اور پوری کائنات ہمارے سامنے باری تعالیٰ کے اعلیٰ نظم و ضبط اور بہترین انتظام وانصرام کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔ اس لیے باری تعالیٰ اس کائنات میں ان حقائق کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ہمیں یوں ترغیب دیتاہے۔ افلا یتدبرون القرآن، افلا یتفکرون، کبھی افلا ینظرون کے کلمات کے ساتھ ہمیں کائناتی نظم کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

اسلام کی تعلیمات اور درس نظم و ضبط

ارکان اسلام میں سے نماز بھی ہمیں نظم و ضبط اور ایک تنظیمی عمل سکھاتی ہے۔ اس میں وقت کی پابندی بھی ہے اور لوگوں کا اجتماع بھی ہے ، اس اجتماع کو تنظیمی عمل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نافع بنایا جاسکتا ہے۔مسلمانوں کے لیے نماز کے لیے جمع ہونا ان کے یک جان ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ مقتدی کا اپنے امام کی ہر ہر ادامیں پیروی کرنا اس کونظم و ضبط کی تعلیم دیتا ہے۔ جمعۃ المبارک اور عیدین مبارک کے اجتماعات اسی نظم کی بڑی واضح مثال ہیں۔ یہ پرشکوہ اجتماعات مسلمانوں کی اجتماعیت میں وحدت کو قائم اور ثابت کرتے ہیں۔ غرضیکہ تمام ارکان اسلام اور اسلام کی ساری تعلیمات میں نظم و ضبط کی بے پایاں اہمیت ہے۔ اسلام نے معاشرے کو مضبوط و مستحکم بنیادوں پر چلانے کے لیے نظام حکومت کا تصور بھی دیا ہے۔ اقتدار اعلیٰ کا مالک اسلام نے اللہ کی ذات کو ٹھہرایا ہے تاکہ حکومتی اقتدار انسان کو اپنی قوت و طاقت کے بل بوتے پر گمراہ نہ کرے اور انسان ہمیشہ اپنے نیابتی نظم میں اپنے فرائض امارت ادا کرتا رہے۔

شیخ الاسلام کا کمال، منہاج القرآن تنظیم کا قیام

ان سب علمی حقائق کی روشنی میں جب ہم منہاج القرآن انٹرنیشنل کے تنظیمی نظام اور مکمل سیٹ اپ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ نظام اوپر سے نیچے کی طرف اور نیچے سے اوپر کی طرف مسلسل پھیلتا اور بڑھتا چلا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام، نابغہ عصر، ڈاکٹر طاہرالقادری نے منہاج القرآن کو ایک عالمی تنظیم کی شکل اس لیے دی ہے تاکہ اس سے وا بستہ افراد ایک عظیم مقصد حیات کو اپنی زندگیوں میں مقرر کرسکیں اور حاصل کرسکیں اور ایک خاص ہدف حیات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناسکیں۔ اپنی ساری توانائیاں اور اپنی زندگیاں اس عالمگیر مقصد اور مشن کے حصول کے لیے وقف کرسکیں۔ وہ مقصد اور مشن احیائے اسلام، غلبہ دین حق کی بحالی کا ہے اور اس کی عملی حقیقت اس دھرتی کے نظام و تنظیم کو مصطفوی نظام و اسلامی تنظیم میں بدلنے کا ہے۔

اس مشن کا حصول جماعت اور تنظیم کے بغیر نہیں ہوسکتا، کوئی بھی جماعت، تنظیم کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی، کوئی بھی تنظیم امیر کے بغیر نامکمل رہتی ہے اور امیر کارکنوں کے بغیر اپنی کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور کارکن تنظیم کے بغیر اپنی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کارکن کسی بھی تنظیم کی بنیاد اور اساس ہوا کرتاہے اور ایک متحرک کارکن اور فعال عہدیدار ہی تنظیم کی عمارت بھی ہے اور کسی بھی تنظیم کا اجتماعی تشخص بھی ہے۔ کارکن تنظیم کے بغیر اپنی پہچان میں نامکمل ہے اور ایک کارکن کے لیے کسی جماعت اور کسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہونے میں ہی کل خیرو برکات ہے اور ایسا کارکن و عہدیدار ہی اللہ کی مددو نصرت کا مزید حقدار ہوتا ہے۔

اس لیے کہ اللہ کا وعدہ ہے یداللہ علی الجماعۃ، اللہ کی مدد تنظیم اور جماعت کو میسر آتی ہے۔ اس لیے ہر کارکن کی ذمہ داری ہے کہ علیکم بالجماعۃ وایاک والفرقۃ جماعت اورتنظیم کو اختیار کرنا اور جماعت و تنظیم کے ساتھ وابستہ ہونا، اطاعت رسول کی ایک صورت ہے، جماعت وتنظیم سے دوری یداللہ علی الجماعۃ کی برکات اور خیرات سے محروم ہونا ہے اور خود کو الفرقۃجماعت اور تنظیم سے دور لے جانا ہے۔

شیخ الاسلام کا دنیا کا سب سے بڑ اتنظیمی نیٹ ورک

شیخ الاسلام نے فکر قرآنی اور فکر نبویﷺ سے مستفید ہوتے ہوئے افراد معاشرہ کو منہاج القرآن تنظیم کے ساتھ وابستہ ہونے کی دعوت عام دی ہے۔ جو شخص بھی اپنی انفرادی زندگی کے مقصد کے علاوہ کسی اجتماعی مقصد کے لیے اپنی زندگی بسر کرنا چاہتا ہو، اس کے لیے بہترین انتخاب منہاج القرآن کی تنظیم ہے۔ منہاج القرآن کا تنظیمی کام اس کے قیام کے بعد 80ء کی دہائی میں شروع ہوا جو پاکستان کے تمام صوبوں، شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے پھیلتا ہوا دنیا کے بڑے بڑے براعظموں تک پھیل چکا ہے۔ آج منہاج القرآن کی تنظیم اپنے قومی اور بین الاقوامی تنظیمی نیٹ ورک کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑ اتنظیمی نیٹ ورک رکھنے والی تنظیم بن چکی ہے۔

شیخ الاسلام کا عصر حاضر میں سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اس قوم کو اجتماعی مقصد حیات بھی دیا ہے اور اس قوم کے ہر فرد کو قوم کے لیے بھی جینے کا درس دیا ہے۔ حتی کہ قوم سے بڑھ کر امت کے لیے بھی جینے کا سلیقہ دیا ہے۔ قوم کے ہر فرد کو بلااستثنیٰ اپنے کارواں میں شامل کیا ہے، ہر درد دل رکھنے والے شخص کو منہاج القرآن کا کارکن، عہدیدار اور رہبر اور راہنما بنایا ہے۔

منہاج القرآن تنظیم کے ذریعے قیادت سازی

شیخ الاسلام نے معاشرے کے نوجوان کو منہاج القرآن یوتھ لیگ کا کارکن اور عہدیدار بنایا ہے، کبھی کسی طالب علم نوجوان کو MSM کا کارکن اور عہدیدار بنایا ہے اور عمر سے زائد رجال معاشرہ کو تحریک منہاج القرآن کا کارکن اور عہدیدار اور رہبر و راہنما بنایا ہے اور معاشرے کی خواتین کو منہاج القرآن ویمن لیگ کی کارکن اور عہدیدار بنایا ہے۔ اس تنظیمی عمل کو مزید تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارتے ہوئے شعبہ جاتی ذمہ داریوں میں تقسیم کیا ہے۔ہر شعبے کو ایک تنظیم کا درجہ دے دیا ہے۔آج منہاج القرآن انٹرنیشنل کے تنظیمی سیٹ اپ کو دیکھیں تو یہ نیچے یونٹ سے شروع ہوتا ہے اور پھر یوسی کی تنظیمات کی طرف بڑھتا ہے وہاں سے ٹاؤنز کی تنظیمات کی طرف آتا ہے اور پھر وہاں سے تحصیل اور ضلع سطح کا تنظیمی سیٹ اپ آتا ہے۔

پھر وہاں سے صوبے کے تنظیمی سیٹ اپ کی طرف بڑھتا ہے وہاں سے یہ مرکز کے تنظیمی سیٹ اپ کی طرف آتا ہے ۔ ہر تنظیم میں 10 سے 15 افراد تک لازمی ہوتے ہیں اور پھر یہ سیٹ اپ ہر سطح پر تنظیمی نیٹ ورک کا ایک وسیع سلسلہ قائم کردیتا ہے ۔ جس میں یہ چند سے شروع ہوکر سینکڑوں عہدیداروں اور سینکڑوں سے ہزاروں عہدیداروں اور ہزاروں سے لاکھوں عہدیداروں کی طرف مسلسل بڑھتا چلا جاتا ہے اور اسی طرح کا منہاج القرآن کا تنظیمی سیٹ اپ ملکی سطح کے علاوہ 100 سے زائد بیرون ممالک کی سطح پر بھی قائم ہے۔ غرضیکہ اندرون ملک ہو یا بیرون ملک ہو منہاج القرآن کے تنظیمی سیٹ اپ میں لاکھوں لوگ شامل ہیں۔اس اعتبار سے منہاج دنیا کی سب سے بڑی منظم اور سب سے بڑی فعال تنظیم ہے جس سے وابستہ ذمہ داران اور عہدیدارن اپنی عزت و ناموس اور اپنی جان و مال اور اپنی قوی غیرت و حمیت کے ساتھ اس کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ یہ مخلص لوگ ہیں اور یہ عظیم قائد کے جانثار ہیں۔ تاریخ ان کی قربانیوں پر مہر تصدیق ثبت کرچکی ہے۔ ان میں سے ہر کوئی انتھک ہے اور بے مثل وفادار ہے اور ہر لمحہ جانثار ہے۔

منہاج القرآن تنظیم کا امتیازی تشخص

افرادی قوت کا اتنا بڑا تربیت یافتہ اور فکری واضحیت کا حامل کوئی طبقہ منہاج القرآن کے علاوہ کسی اور جماعت اور تنظیم کے پاس نہیں ہے۔ یہ منہاج القرآن پر در رسالتﷺ سے آنے والے فیوضات کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔

بلاشبہ عصر حاضر نے شیخ الاسلام جیسا کوئی اور اعلیٰ درجے کا منتظم اور کوئی بے مثل مدبر اور کوئی قابل فخر تنظیم ساز کم ہی دیکھا ہوگا جس نے انتہائی تھوڑے عرصے میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک میں تحریک کا عالمگیر تنظیمی نیٹ ورک قائم کردیا ہے اور جو سینکڑوں تنظیمی و اسلامی مراکز کی صورت میں پوری دنیا میں اپنے وجود پر خود گواہ و شاہد ہے۔

منہاج القرآن انٹرنیشنل کا نیٹ ورک دنیا کے تمام براعظموں میں پھیلا ہوا ہے۔ ہزاروں، لاکھوں لوگ اس کے باقاعدہ رفقاء اور عہدیداران ہیں۔ تحریکی کارکن لاکھوں سے متجاوز ہیں، یہ دنیا میں جہاں بھی ہیں یہ سب کے سب ایک تنظیمی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ اس بنا پر یہ سب کے سب مل کر ایک مضبوط تنظیمی طاقت اور ایک مستحکم تنظیمی قوت اور ایک ناقابل تسخیر اجتماعیت بنتے ہیں۔ بلاشبہ یہ بے مثال اور بے نظیر تنظیمی نیٹ ورک شیخ الاسلام کی تنظیمی صلاحیت اور قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور آپ کی قائدانہ اور رہبرانہ حیثیت کی زندہ اور عملی شہادت ہے۔ یقیناً وہ اپنے تنظیمی عمل کی عدم مثلیت سے ایسے میر کارواں ثابت ہوئے ہیں جس کی طرف اقبال نے یوں اشارہ کیا ہے:

نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے