ماضی کے دریچوں سے: شیخ الاسلام کی براہِ راست توجہات اور صحبتوں کا لامحدود سلسلہ

شمیم خان

1994ء میں جب منہاج القرآن گرلز کالج (موجودہ منہاج القرآن ویمن کالج) کے آغاز کے لیے ملک بھر سے منہاج القرآن ویمن لیگ کی قائدین کو مرکز پر بلایا گیا تو میں بھی محترمہ ڈاکٹر شاہدہ مغل کے ساتھ دیگر سٹوڈنٹس کے گروپ کے ہمراہ دینی تعلیم کے حصول کے لیے منہاج القرآن سیکرٹریٹ لاہور آئی اور دیگر قائدین کے ساتھ کالج کے انتظام وانصرام میں معاونت کا موقع ملا۔

6 اکتوبر 1994ء کو مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے قیام کی تقریب منعقد ہوئی جس میں پہلی بار شیخ الاسلام کی زیارت اور تعارف ہوا اور ایک عامیانہ زندگی سے بامقصد زندگی کے سفر کا آغاز ہوا۔ زندگی میں پہلی بار پتہ چلا کہ اب تک کی زندگی کے سال جینے کے لیے ہی گزر رہے تھے اور اب زندگی کا اصل سفر شروع ہوا ہے۔ شیخ الاسلام کا میری زندگی پر سب سے بڑا احسان یہی ہوا کہ ’’زندگی صرف جینے کا نام نہیں بلکہ مقصد کی خاطر جینا ہی اصل جینا ہے۔‘‘ کا تصور ملا۔

یہیں سے شیخ الاسلام کی براہ راست توجہات، سنگتوں اور صحبتوں کا لامحدود سلسلہ شروع ہوگیا جس نے زندگی کو نعمتوں، برکتوں، رنگوں اور خوشبوؤں سے بھردیا جو الحمدللہ تاحال جاری ہے۔ ہمارے عظیم قائد کی براہ راست تربیت اور توجہ نے ہم کھوٹے سکوں کو بھی کارآمد بنادیا اور اس بات کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میرا ان آخری چند لوگوں میں شمار ہوگیا جنہوں نے براہ راست شیخ الاسلام سے ہر قدم پر رہنمائی اور فیوضات سمیٹے۔

چند گزارشات آپ بہنوں تک پہنچانے کی خاطر قلم اٹھانے کی جسارت کی جو آپ کی ذاتی و تنظیمی زندگی میں زاد راہ بن سکیں اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ سب میرے پاس تحریک کی امانت ہیں۔ ایسی امانت کہ جس کا تصور شیخ الاسلام سے براہ راست سیکھا۔ جو خدمت سپرد ہو جو ڈیوٹی لگائی جائے اس کو پوری امانت اور دیانت سے نبھایا جائے۔ ایک لمحہ کی بھی کوتاہی نہ ہونے پائے یہاں تک کہ اس دوران وقت، مال، اس کی ہر شے کو امانت سمجھ کر استعمال کیا جائے۔ قائد محترم اکثر بتایا کرتے تھے کہ وہ منہاج القرآن کی کسی چیز کو ذاتی استعمال میں نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ چائے کا کپ بھی اپنی جیب سے ادا کرکے پیتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی قائد کے اس اصول کو مشعلہ راہ بناتے ہوئے گزارنے کی اس طرح کوشش کی منہاج القرآن کی ہر شے چاہے ذمہ داری ہو یا کوئی بھی شے اس کو اپنے لیے امانت سمجھا یہاں تک کہ اگر کسی کاغذ یا قلم سے ذاتی تحریر بھی لکھنا ہوتی تو منہاج القرآن کے کاغذ قلم کے بجائے ذاتی کاغذ اور قلم استعمال کرتی اورآج تک اس امانت اور دیانت کے اصول کو ہر جگہ پر قائم رکھا ہوا ہے۔

یہ اوائل دور کی بات ہے کہ شیخ الاسلام نے پیپر ورک سے لے کر پروگرامز کو مینیج کرنا تک ہمیں خود سکھایا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے آفس میں ایک تربیتی سیشن میں قائد محترم کے ساتھ آپ کی اہلیہ کو بھی دعوت دینی تھی۔ قائد محترم نے پروگرام کا شیڈول پوچھا جس پر میں نے پیپر پیش کیا۔ آپ نے دیکھ کر مجھے ترتیب درست کرنے کا فرمایا کہ مہمانان کے پروٹوکول کے مطابق کیسے ترتیب بنتی ہے۔آج تک میں نے زندگی میں جو بھی پیپر ورک، پلان، کیمپ، سیمینار کئے قبلہ حضور کی اسی تربیت نے ہر جگہ رہنمائی فراہم کی۔

شیخ الاسلام ہمیشہ بیٹیوں کی بات کو بہت اہمیت دیتے مجھے یاد ہے کہ گرلز کالج کے آغاز کے لئے سامان کی براہ راست نگرانی فرماتے رہے اور حکم فرمایا کہ بیٹیوں کی رائے اور منظوری سے تمام کام سرانجام دئیے جائیں۔

فیصل آباد سے ایک بار مجھے اکیلے واپس آنا تھا۔ شیخ الاسلام کو پتا چلا کہ چھوٹی بیٹی کے ساتھ اکیلے سفر کرنا ہے تو اپنے ساتھ اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے آئے اور راستے میں خواتین کے مسائل اور معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے ورکنگ پلان بنانے پر گائیڈ لائن فراہم کرتے رہے۔ہمیں بھی اپنے ساتھ رہنے اور چلنے والوں کے مسائل اور معاملات کو اسی طرح دیکھنا چاہیے۔ اور یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ سفر ہو یا سکون اپنے وقت کو کیسے بامقصد بنانا ہے۔

منہاج القرآن صرف ایک تنظیم یا تحریک نہیں یہ پوری دنیا میں پھیلا ایک خاندان ہے جس کے سربراہ حضور شیخ الاسلام ہیں اور ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی دی گئی تعلیمات کو اپنا زاد راہ بناتے ہوئے اپنے شیخ کی سنگت میں کشتی نوح کی مانند اس زندگی کے سفر کو پار لگانا ہے کہ روز قیامت آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں شرمندہ ہونے سے بچ جائیں۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے یہ قیمتی سال آج کے مجدد کی صحبت اور سنگت میں گزارے۔ اللہ پاک میری نسلوں کو بھی اس سنگت کا تسلسل بنائے رکھے۔ آمین۔

قائد کی سنگت اور صحبت نے عمومی خاندان کے تصور کو یکسر بدل دیا اور ’’منہاج القرآن ایک خاندان‘‘ کا بیش قیمت تصور کا احساس دیا۔ ہم جب منہاج القرآن کے مرکز آئے تو قائد محترم کی محبت و شفقت اس طرح ملی کہ کبھی اپنے والدین اور گھر کی کمی محسوس نہیں ہوئی ہمارے کھانے، پینے، ضروریات زندگی سے لے کر سونے جاگنے تک کے معاملات اور ڈسپلن کی اس طرح نگرانی فرماتے کہ ایک لمحہ کے لیے بھی کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم کسی اجبنی جگہ پر ہیں۔ اتنی حفاظت اور سکون تو کبھی شاید آپ کو گھر میں بھی نہ محسوس ہوتا جو قائد کے زیر سایہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان خانہ منہاج القرآن میں ملا۔

شیخ الاسلام سے سمجھا کہ اصل خاندان تو اللہ اور اس کے حبیب کے تعلق کے ساتھ جڑا ہو۔ جو یقیناً اگلے جہان میں بھی قائم رہے گا۔ ان شاء اللہ۔ شیخ الاسلام اکثر فرماتے تھے کہ جب آپ اللہ اور اس کے رسول کے مشن کا کام کررہے ہوتے ہیں اور مشکلات اور پریشانیاں آتی ہیں تو خدا خود آسانیاں پیدا فرمادیتا ہے اور اس بات کو عملی طور پر ہر جگہ پورا ہوتے پایا۔ قائد محترم کا اپنی تحریکی بیٹیوں سے بہت محبت اور شفقت کا پہلو بہت جداگانہ تھا اس دور میں جب مردوں کا خواتین کے کام کو قبول کرنا ہی مشکل تھا اس وقت شیخ الاسلام نے انتہائی شفقت اور محبت اور رہنمائی فرمائی۔ ایک کارکن کی تحریکی ذمہ داریوں سے لے کر خانگی ذمہ داریوں تک ہر لمحہ سرپرستی اور نگرانی فرمائی۔ شیخ الاسلام کی اہلیہ محترمہ رفعت جبیں قادری، آپ کی عدم موجودگی میں ہمارا ایک ماں کی طرح خیال رکھتیں۔ شاید ہی دنیا میں کوئی لیڈر اس طرح اپنی کارکنان بیٹیوں پر شفقت کرتا ہو جو ہمیں قائد محترم نے عطا کی اور اب بھی وہ دنیا کے جس کونے میں بھی ہوں وہ ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہیں شیخ الاسلام کا اس حوالے سے یہ فرمانا کہ ’’میرے وقت میں آپ سب کا بھی حصہ ہے۔‘‘ بلکہ آپ تو میرے وقت میں شیئر ہولڈرز ہیں۔‘‘ یہ الفاظ ہمارے لیے زندگی بھر کا اثاثہ ہیں۔ میں شیخ الاسلام کی صحت و سلامتی اور درازی عمر کے لیے دعا گو ہوں۔