سفرِ مدینہ اور شیخ الاسلام کی سنگت

آسیہ سیف قادری

شیخ کامل کی ذات وہ ہستی ہے جو اپنے رفیق کو حق سے ملانے کا بہترین ذریعہ و وسیلہ بنتی ہیں۔ قرآن مجید میں بھی اللہ رب العزت نے حکم دیا:

1۔ ’’بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔‘‘

(یونس، 10: 62)

2. کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.

(التوبۃ، 9: 119)

’’سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔‘‘

3۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے شیطان مردود کا یہ مقولہ ذکر کیا ہے۔ مجھے تیری عزت کی قسم میں تیرے مخلص بندوں کے سوا باقی لوگوں کو گمراہ کردوں گا۔

اولیاء کرام وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کی قوتوں کا اعتراف ان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اللہ کے مخلص و صالحین بندوں پر میرا زور نہیں چلتا۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی یہ امر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک و مقرب اور برگزیدہ بندوں کی صحبت و سنگت اختیار کرنا ان سے لوجہ اللہ محبت کرنا صراط مستقیم پر چلنے کے لیے کتنا ضروری اور اہمیت کا حامل ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی یارسول اللہ! اس شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو کسی شخص سے محبت رکھتا ہے لیکن ان جیسے اعمال کرکے ان سے ملا نہیں اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا (روز قیامت آدمی اس شخص کے ساتھ ہوگاجس سے (دنیا میں) وہ محبت رکھتا ہوگا۔ (البخاری)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا میری عظمت کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کون ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا کیونکہ آج میرے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہیں ہے۔

(الصحیح، مسلم، رقم الحدیث: 298)

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے (قیامت کے دن) نور کے منبر ہوں گے جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے۔

(ترمذی شریف، رقم الحدیث: 291)

گویا مرد مومن کے دل پر براہ راست اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت کے انوار اور تجلیات کا نزول ہوتا ہے اور اس کا دل ہی انوار عرش الہٰیہ کا منبع و مرکز بن جاتا ہے۔ اس کا وجود چلتا پھرتا قبلہ و کعبہ بن جاتا ہے۔

قیامت کے دن ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہوگا سورج سوا نیزے پر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب زوروں پر ہوگا اولاد ماں باپ سے اور ماں باپ اولاد سے بیوی شوہر سے اور شوہر بیوی سے منہ چھپاتے پھریں گے کہ کہیں کوئی ہم سے ہماری نیکی نہ مانگ لے اس دن واضح ہوگا کہ کن لوگوں کی دوستی مفید ہے کن کی سنگت اور صحبت کام آنے والی اور کن کی برباد کرنے والی ہے۔

درد منداں دی یاری اینویں وانگ دکان عطاراں
تے سودا بھانویں لیے نہ لیے ہُلے آن ہزاراں

اولیاء اللہ کی حجت و معیت میں گزری چند گھڑیاں کتنی مبارک اور اہم ہیں مولانا شیخ سعدی فرماتے ہیں :

یک زمانہ محبت باولیا
صدہا بہتر از اطاعت بے ریا

حضرت جلال الدین رومیؒ اپنی مثنوی مولانا روم میں فرماتے ہیں کہ اپنا دل کسی کو نہ دے مگر اس کو دے جس نے اپنا دل اللہ کو دے رکھا ہو۔

مولوی ہرگز نہ باشد مولائے روم

حضرت سلطان باہو جو کہ مادر زاد ولی ہے جس راہ سے گزرے ہر چیز ان کے ساتھ ھو ھو کی صدا بلند کرتی اس کے باوجود وہ مرشد کامل کی تلاش میں 25 سال سرگرداں رہے اور طویل جدوجہد اور تلاش کے بعد جب انہیں مرشد کامل مرد حسن اپنا شیخ کامل ملا تو وہ بے اختیار پکار اٹھے۔

ایہہ تن میرا چشمہ ہووے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ہو
لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں اک کھولاں اک کجاں ہو

حضرت سلطان باہو کے نزدیک مرشد حق کی ضرورت اس قدر ہے کہ انھوں نے فرمایا اللہ کی ذات تک رسائی اور معرفت کی منزل مرشد کامل کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

نہ رب عرش معلیٰ ملیا نہ رب خانے کعبے ہو
نہ رب علم کتابیں لبھا اے نہ وچہ محرابے ہو

حقیقت یہ ہے کہ ان سب باتوں کی سمجھ صحیح معنوں میں اس وقت آئی جب اپنے محبوب قائد کی سنگت میں در مصطفی ﷺ کی حاضری سے شرف یاب ہونے کے لیے شہر مدینہ پہنچے جو سرتاج ہے تمام شہروں کا وہ شہر مدینہ کہ جو عاشقوں کی جاگیر ہے جنت ارض ہے جس کی فضائیں مہکی مہکی، جس کی ہوائیں معطر معطر، صبا جس کی بلائیں لیتی ہے خوشبوئیں جس کا طواف کرتی ہیں۔ یہ قرینہ نورو نگہت دنیا کا محبوب ترین خطہ اور کائنات کا مرکز نگاہ اس لیے کہ اسے حضور نبی اکرم ﷺ کا دارالحجرت، جائے سکونت اور آخری آرام گاہ ہونے کا شرف ملا اس کی سرزمین پہ گنبد خضرا ہے۔

اعزاز یہ حاصل ہے تو حاصل ہے زمین کو
افلاک پہ تو گنبد خضریٰ نہیں کوئی

وہ گنبد خضرا جس کو دیکھیں تو آنکھوں کو ٹھنڈک دل کو قرار نصیب ہوتا ہے جس کا نظارہ ہر عاشق کے لیے راحت دل و جان ہے۔

تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے
جسے دیکھنی ہو جنت وہ مدینہ دیکھ آئے

بہر کیف بارگاہ رسالتمآب ﷺ میں با ادب حاضری کے بعد پہلا سوال چپکے چپکے دھیرے دھیرے میں نے عرض کیا کہ میرے کریم آقا ﷺ میرے لجپال آقا اپنے محبوب اور مکرم بندے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیارت اور ملاقات اس مقدس سر زمین پر نصیب فرما۔ یقین جانئے تب خبر ہوئی کہ دل کی لگی کیا ہوتی ہے۔ شیخ کی محبت اور عشق حقیقی کیا ہوتا ہے کیونکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بہت سے منہاجینز بیٹے، بیٹیاں، بہت رفقاء، متوالے اپنے شیخ کے سنگ عمرے کی سعادت حاصل کرنے اور سفرِ مدینہ اور زیارت روضہ رسول ﷺ کی خاطر وہاں جمع تھے کیونکہ ملاقات کو پانچ سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا۔ تمام کارکنان وابستگان رفقائے تحریک اور محبان تحریک اپنے محبوب قائد، عظیم مربی، سیدی شیخ الاسلام سے اداس ہورہے تھے۔ سب کے دل ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار تھے دید کی پیاسی نظریں ہر طرف ان کو ہی ڈھونڈنے میں سرگرداں گھوم رہی تھیں لیکن وہاں جاکر پتہ چلا کہ میں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔

میرے سامنے ایک دریا اور بھی ہے

وہاں کے حالات کے پیش نظر کچھ ضروری حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے جس کی وجہ سے وہاں سیدی شیخ الاسلام کی زیارت و ملاقات بھی نہایت دشوار ہوگئی تھی۔

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

بہر حال بارگاہ مصطفی ﷺ کی گئی دعا والتجا قبول ہوگئی۔ بھائی نے بتایا کہ نمازِ عصر کی ادائیگی کے لیے قائد محترم مسجد نبوی میں تشریف لارہے ہیں۔ پھر کیا تھا میں گیٹ نمبر2 کی طرف لپکی۔ جلدی سے ایک ہوٹل کے سامنے بیٹھ گئی۔

مرشد دے دوارے اتے محکم لایئے جھوکاں

جب سیدی شیخ الاسلام خراماں خراماں نہایت پروقار اور ادب و عاجزی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں چھتری تھامے ہوئے تشریف لائے تو ہم نے ہزاروں کے جھرمٹ میں ان کا نورانی چہرہ دیکھا یوں لگا کہ آنکھوں کے رستے دل میں اک نور سا اترتا چلا گیا پیاسی نگاہیں جلوہ جاناں اچھی طرح سے کر بھی نہ سکیں کہ آپ حرم میں داخل ہوکر نظروں سے اوجھل ہوگئے تاہم میں نے جلدی سے تھوڑا قریب جاکر نہایت ادب سے سلام کیا اور انھوں نے بھی چہرہ میری طرف کرکے جواب دیا میں تو پہلے ہی خوشی سے پھولی نہیں سماتی تھی اور پھر میری خوشی کا عالم ہی نرالہ تھا جو بیان سے باہر ہے۔

اس دن سے ہر روز جلدی سے نماز سے پہلے حرم نبوی میں آنا اور پھر مسجد نبوی کے فرنٹ حصے پر جانا تاکہ قائد محترم کی زیارت سے مشرف ہوسکوں۔ اب ایک طرف سرکار دو عالم ﷺ کے گنبد خضریٰ کے روح پرور نظارے تھے اور دوسری طرف زیارت شیخ اور دیدار مرشد یقین کیجئے کہ ہم تو وہاں جاکر بھی اپنے محبوب قائد اپنے شیخ کامل کی زیارت محبت اور ان کی قربت اور ان کی توجہ اور نگاہ کرم اور دعاؤں کے طالب ہی رہے۔

سب کچھ مانگ لیا خدا سے تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد

بس میں نے تو جس بھی تحریکی بہن یا بھائی یا رفقائے تحریک کو دیکھا سب اسی درد اور آرزو میں مبتلا تھے کہ کاش اپنے قائد کے ساتھ تربیت و محبت کے چند لمحے مل جائیں کاش ان کے چہرے کی ہلکی سی مسکراہٹ اور اک نگاہ کرم ادھر بھی اٹھ جائے تو سفرِ مدینہ اور عمرے کی سعادت کا لطف دوبالا ہوجائے۔

ان کو ہر لمحے اپنے محبوب کی تانگ ستائے رکھتی ہے ان کی ہر خوشی اور غم محبوب سے جڑا ہوتا ہے۔ محبوب کے در کے پھیرے ہی ان کی زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔

ہر عاشق ہر مرید صادق کی یہ دلی آرزو ہوتی ہے کہ اپنے شیخ اپنے پیرو مرشد کے سنگ عمرے کی سعادت حاصل کرے، بحمدہ تعالیٰ یہ خواہش اللہ رب العزت نے پوری فرمادی۔

اپنے معمول کے مطابق میں عصر کی نماز سے پہلے تیزی سے سے گیٹ نمبر2 کی طرف جارہی تھی کہ شیخ الاسلام کی صاحب زادی محترمہ قراۃ العین فاطمہ سے ملاقات ہوگئی انہیں ادب سے سلام کیا۔ ان کے ساتھ ہی آپ کی اہلیہ مسز رفعت جبیں قادری، محترمہ فضہ حسین قادری اور محترمہ درہ باجی سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ان کے ساتھ نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ان سے شیخ حماد مصطفی المدنی القادری کے نکاح سے متعلق گفتگو ہوئی اور بعد ازاں فون آگیا کہ آٹھ بجے فلاں شادی ہال میں پہنچ جائیں وہاں نکاح کی تقریب میں شرکت کریں بہت دلی خوشی ہوئی جلدی سے تیار ہوکر وہاں پہنچی۔ نہایت عظیم الشان انتظام تھا عورتوں اورمردوں کا الگ الگ انتظام تھا مردوں کی سائیڈ LED پر نظر آرہی تھی موبائل کی اجازت نہ تھی پردے کا نہایت سخت انتظام تھا۔ عربی نعت خواں دف پر عربی کلام پڑھ رہے تھے۔

سیدی شیخ الاسلام نے خود صاحبزادہ حماد مصطفی کا نکاح پڑھایا اور بعد ازاں خواتین کی سائیڈ پر بھی تشریف لائے سب نہایت ہی پروقار اور خوبصورت دکھائی دے رہے تھے۔ کسی سے کوئی گفٹ نہیں لیا گیا۔ اس طرح نہایت سادہ مگر پروقار انداز میں تقریب نکاح اپنے اختتام کو پہنچی۔

اگلے روز میری مختصر ملاقات ڈاکٹر ڈاکٹر غزالہ حسن قادری نے سیدی شیخ الاسلام سے کروادی۔ سیدی شیخ الاسلام نے مجھے پہچان کر سب کی خیریت دریافت کی پھر ڈھیروں دعاؤں سے نوازا کہ آقا ﷺ آپ پر رحمتیں نازل فرمائے۔ الغرض نہایت جامع اور خوبصورت دعاؤں سے نوازا جو شاید اس سے پہلے بھی مجھے نصیب نہ ہوئی ہوں گی۔

26 دسمبر کو میں مدینہ پاک سے مکہ مکرمہ روانہ ہوگئی وہاں جاکے عمرہ کیا اگلے دن صبح فجر کی نماز کے بعد پہلا طواف حضور اکرم ﷺ کی نسبت سے کیا جو خاص کرم والا نہایت سکون دینے والا طواف تھا سب کچھ اسی میں ہوگیا دہلیز کعبہ کو تھاما غلاف کعبہ کو سینے سے لگایا جی بھر کے چوما اور رکن یمانی کا بوسہ لیا۔ مقام ابراہیم کو چوما اور سب سے بڑی بات حجر اسود کا انتہائی خوبصورت بوسہ نصیب ہوا۔

میرے شیخ، میرے محبوب قائد کی دعاؤں سے وہ کچھ نصیب ہوا جو پہلے بھی شاید نہیں ہوا ہوگا۔ بحمدہ تعالیٰ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی اور اپنے محبوب شیخ کے ساتھ ان مبارک سرزمینوں پر عبادت کرنے کا شرف نصیب ہوا۔

دل وہیں رہ گیا جان وہیں رہ گئی