ڈاکٹر طاہرالقادری کی علمی و ادبی خدمات

سمیہ اسلام

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بن ڈاکٹر فرید الدین قادری 19 فروری 1951ء کو پاکستان کے ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 1955ء سے 1986ء تک علمی مراحل طے کیے۔ آپ کی تعلیمی صلاحیتوں میں درس نظامی کورس، اسلامیات میں ایم اے، اسلامی فلسفہ عقوبات میں پی ایچ ڈی اور قانون کی تعلیم شامل ہے۔ 1974ء سے 1988ء تک آپ مختلف تعلیمی اداروں کی تدریس سے وابستہ رہے اور اسی دوران شعبہ وکالت سے بھی وابستہ رہے۔ 1980ء میں آپ نے ’’ادارہ منہاج القرآن‘‘ کی بنیاد رکھی اور یہی آپ کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بہت سے اسلامی موضوعات پر اردو، انگریزی اور عربی زبان میں سیکڑوں کتب شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں قرآن مجید کا ترجمہ عرفان القرآن، تفسیر منہاج القرآن، المنہاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ، انسائیکلوپیڈیا، الموسوعہ بلحدیث، سیرت الرسول ﷺ، میلاد النبی ﷺ و دیگر کتب سر فہرست ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر موضوعات پر کتب طبع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں اور کچھ زیر طبع ہیں۔ آپ کی درجنوں تصانیف کا دنیا کی اکثر زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور وہ شاملِ نصاب بھی ہو چکی ہیں جب کہ پانچ سو سے زائد مسودات طباعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔

عرفان القرآن

الوہی زبان کو اس کے اصل متن سے کماحقہ سمجھا جاسکتا ہے، کوئی دوسری زبان الوہی و ربانی بیان کے محاسن و کمالات اور اس میں پوشیدہ اسرار و رموز، حسنِ نظم و کلام کو بیان کرنے کا حق ادا نہیں کرسکتی۔ اہل عجم کی عربی زبان سے ناشناسی کی بناء پر مفسرین و محققین نے ایک عرصہ دراز کے بعد قرآنی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے لئے تراجم اور تفاسیر کا سلسلہ شروع کیا۔

اس سلسلے میں برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے جس عظیم شخصیت کو یہ سعادت حاصل ہوئی وہ ہر مکتبہ فکر کی ہر دلعزیز ہستی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی۔ جب انہوں نے قرآن کی تعلیمات کو عام لوگوں تک پہنچانے کا ارادہ کیا اور قرآن حکیم کا سب سے پہلے فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن کے نام سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا تو مخالفت و مخاصمت کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ معاصرین نے انہیں اپنے فتوؤں کا نشانہ بنایا اور اسے بدعت قرار دیتے ہوئے ناجائز ٹھہرایا۔ اسلامی تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو معاصرین کا یہ رویہ کوئی نئی چیز نہ تھا ہر دور میں جب بھی کوئی شخصیت دین کی بنیادی حدود میں رہتے ہوئے کوئی مجتہدانہ کام سرانجام دیتی ہے۔ پہلے پہل سوائے چند صاحب بصیرت کے اسے کوئی قبول نہیں کرتا۔ رفتہ رفتہ پورا زمانہ ان کی تحقیق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ ان کی علمی ثقاہت اور عظمت کا معترف بھی ہوجاتا ہے۔

اردو زبان میں سب سے پہلا ترجمہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے جلیل القدر فرزند حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القرآن کے نام سے کیا۔ یہ ترجمہ انہوں نے اپنے والد گرامی کے فارسی ترجمہ ’’فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن‘‘ کو سامنے رکھ کر کیا۔ تمام قدیم و جدید اردو تراجم میں شاہ عبدالقادر کے اس ترجمے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور سرزمین ہند میں جتنے بھی اردو تراجم ہیں یہ ترجمہ ان کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد دیگر اردو تراجم کا سلسلہ شروع ہوگیا اور آج تک جاری و ساری ہے۔ عصر حاضر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ترجمہ عرفان القرآن کی زبان بیک وقت لفظی بھی ہے اور محاوراتی بھی ہے۔ گویا یوں یہ لفظی و محاوراتی ترجمے کا ایک حسین امتزاج اپنے اندر لئے ہوئے ہے، تراجم کی تاریخ میں اس اسلوب پر یہ اپنے نقطہ کمال پر دکھائی دیتا ہے۔ عرفان القرآن کے نام سے آپ نے قرآن مجید کا سلیس اردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترجمہ ہو کر تفسیری شان کا حامل ہے اور عام قاری کو تفاسیر سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

عرفان القرآن کی خصوصیات

ترجمہ از خود تفسیر

عرفان القرآن بظاہر ترجمہ ہے لیکن یہ درحقیقت قرآن کی تفسیر بھی خود ہے، دیگر تراجم کا فقط ترجمہ پڑھنے سے قرآن کی آیت کا معنی و مفہوم کاملاً واضح نہیں ہوتا کہیں نہ کہیں اس کا مطلب سمجھنے میں دشواری رہ جاتی ہے۔ اس لئے تفسیر کی حاجت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں متداول تفاسیر کے مقاصد میں سے ایک مقصد اس کے ترجمے کے مفہوم و مطلب کو واضح کرنا بھی ہے، مگر جب ہم عرفان القرآن کو پڑھتے ہیں تو آیت کا معنی و مفہوم ترجمے میں ہی واضح ہوجاتا ہے۔ ترجمے کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے حسب ضرورت ترجمے کے اصل الفاظ کے علاوہ بریکٹ میں چند الفاظ بھی لکھ دیئے گئے ہیں۔ جب قاری اس ترجمے کو پڑھتا ہے تو آیت کے معنی کے ایضاح کے ساتھ اس پر ایک عجیب بے خودی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ ایسے محسوس کرتا ہے جیسے آیت کریمہ خود بول کر اسے اپنا معنی و مفہوم سمجھارہی ہو۔

علمی ثقاہت اور فکری معنویت

مترجم کی اپنی علمی ثقاہت اس کے ترجمے کی ثقاہت کی بھی آئینہ دار ہوتی ہے، عرفان القرآن اس ہستی کا شاہکار ہے جس کی علمی ثقاہت اپنے تو کیا غیر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ایسی ہستیوں کے تراجم اس خوبی کی بناء پر کسی خاص زمانے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کو راہنمائی دیتے رہتے ہیں۔ جہاں تک فکری معنویت کا تعلق ہے مترجم قرآن آیت کا ترجمہ آیت کے ظاہری معنی، باطنی معنی اور قرآن و سنت کی ساری تعلیمات کو سامنے رکھ کر کرتا ہے تاکہ اس کا وہ ترجمہ دور حاضر میں جہاں قرآن کی حقانیت کو ثابت کردے وہاں قرآنی تعلیمات کی دائمیت کا ثبوت بھی فراہم کرے۔

عقلی تفکر اور قلبی تذکر

عرفان القرآن کی ایک اور امتیازی خوبی یہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے عقل کو غورو فکر کی نئی راہیں ملتی ہیں، اس کا ترجمہ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ بریکٹ میں دیئے گئے چند الفاظ ایک آیت کے فکرو عمل کے تمام زاویے کھول دیتے ہیں، وہ چند الفاظ ایک بہت بڑے مضمون اور فکر کو اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت دریا کو کوزے میں بند کرنے کی ہوتی ہے۔ اس طرح آیت کے نفس مضمون کے مطابق بعض الفاظ نہاں خانہ دل میں ایک ہلچل پیدا کردیتے ہیں اور دل پر ایک خوف و خشیت کی کیفیت طاری کردیتے ہیں اور یوں دل حضور الہٰی میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔

اسلوب بیان کی عمدگی اور ندرت

عرفان القرآن کا اسلوبِ بیان اس اعتبار سے بھی انوکھا ہے کہ اس میں بہتے ہوئے پانی کی روانی ہے۔ انسان ہوا کے رخ کی طرف ترجمے کی سلاست کے ساتھ اگلے سے اگلے مفہوم کو جاننے کے لئے مسلسل بڑھے چلا جاتا ہے۔ محویت کے عالم میں وقت گزرنے کا احساس تک نہیں رہتا۔ عرفان القرآن کے اسلوب کی یہ ندرت کہیں اور نہیں ملتی۔

سائنسی تحقیق اور نظری جدت

اس ترجمے میں انسان کی تخلیق سے لے کر کائنات کی تخلیق تک اور قیامت کے وقوع تک تمام حقائق کو شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے بیان کردیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ جن حقائق تک سائنس آج پہنچی ہے قرآن ان کو آج سے چودہ سوسال قبل بیان کرچکا ہے۔

قرآنی انسائیکلوپیڈیا

قرآنی انسائیکلوپیڈیامضامینِ قرآن کا ایک ایسا جامع مجموعہ ہے جو عصری تقاضوں کو مطالعہ قرآن کی روشنی میں پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اِن شاء اللہ آنے والی نسلوں کی علمی، فکری، اخلاقی، روحانی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی حوالے سے بھی رہنمائی کرتا رہے گا۔

قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے امتیازات

کسی بھی کتاب کی قدر و قیمت، افادیت اور رفعت و منزلت کا اندازہ ایک طرف اس کتاب کے موضوع اور اس میں بیان کردہ مضامین، مطالب اور مشمولات سے ہوتا ہے تو دوسری طرف اس کے مؤلف و مرتب کا علمی مقام و مرتبہ، علم و فن پر ملکہ و مہارت اور تعمّق و تبحّر اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ امر نہایت ہی خوش آئند ہے کہ اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو اُس بین الاقوامی شخصیت نے مرتب کیا ہے جو نہ صرف جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج ہے بلکہ اقوامِ مشرق و مغرب کے فکری بُعد اور زمانہ ہائے قدیم و جدید کے علمی، فنی اور ذہنی فاصلوں میں ایک مسلّمہ سنگم بھی ہے۔ یہ انسائیکلوپیڈیا حضرت شیخ الاسلام کے نصف صدی سے زائد مطالعہ قرآن کا نچوڑ ہے۔ جدید عصری، سائنسی اور فکری موضوعات اس انسائیکلوپیڈیا کا خاصہ ہیں۔

قرآنی انسائیکلو پیڈیا 8 جلدوں پر مشتمل ہے، جس میں تقریباً 5 ہزار موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ صرف موضوعاتی فہرست 400 صفحات پر مشتمل ہے جوکہ 8 ضخیم جلدوں کے مشمولات کا خلاصہ ہے۔ اِس کے مطالعہ سے ذہن میں پورے انسائیکلو پیڈیا کا اجمالی خاکہ نقش ہو جاتا ہے اور ابواب کی تفصیل تک رسائی میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ قاری کی سہولت کے لیے قرآنی انسائیکلو پیڈیا میں شامل عنوانات کو عصری تقاضوں اور ضروریات کے مطابق عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں استعمال ہونے والی اصطلاحات اور الفاظ کے مطالب و مفاہیم کے لئے اِس کی آخری تین جلدیں مختص کی گئی ہیں۔ ہر لفظ کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے تاکہ عربی زبان سے واقف اور نا واقف یکساں مستفید ہو سکیں۔

الموسوعۃ القادریۃ في العلوم الحدیثیۃ

آپ نے علم الحدیث کی خدمت کے باب میں گزشتہ ربع صدی میں لاکھوں احادیث کے مطالعہ کے بعد ہزارہا احادیث منتخب فرما کر ان کو نئے تراجمِ اَبواب، عنوانات، ضروری توضیحات و تعلیقات کے ساتھ جمع کیا اور اُمتِ مسلمہ کو سینکڑوں کتب حدیث کے عطر و عرقِ مشک بار کا تحفہ عطا کیا۔ علوم الحدیث کے باب میں تشنگی تھی جو حضرت شیخ الاِسلام نے ”الموسوعة القادرية“ تالیف کر کے دور فرما دی ہے۔ آٹھ جلدوں پر مشتمل یہ موسوعہ درج ذیل امتیازی خصوصیات کا حامل ہے:

”الموسوعة القادرية“ شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علوم الحدیث کے باب میں ربع صدی پر محیط علمی و تحقیقی جہد و سعی کا نتیجہ ہے۔ ”الموسوعة القادرية“ کسی ایک شخصیت کے قلم سے تحریر ہونے والا ایسا نادر مجموعۂ علوم الحدیث ہے جس کی گذشتہ چار صدیوں میں شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔ ”الموسوعة القادرية“ میں علوم الحدیث کی اہم ترین ابحاث پر مدلل ومحقق تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ یہ موسوعہ علوم الحدیث پر گذشتہ سات آٹھ سو سال کے ائمہ محدثین کی تصانیف کے مطالعہ کا نچوڑ ہے۔ جسے نئے اِستشہادات اور نئے شواہد کے اضافہ جات سے مزین کرکے پیش کیا گیا ہے۔ الموسوعة القادرية کی اصل قدر و قیمت اور علمی و تحقیقی وسعت و وقعت اور گہرائی و گیرائی کا اندازہ تو اس کے مطالعہ کے بعد ہی ہوگا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شیخ الاِسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کی ان علمی کاوشوں سے کما حقہ مستفید ومستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سنت رسول ﷺ اور حدیث نبوی ﷺ کا کامل فہم عطا کرے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ )