میری تربیت اور شیخ الاسلام

ڈاکٹر شاہدہ نعمانی

زندگی خسارہ ہے اور انسان ناپائیدار، اپنی کم آئیگی کا ادراک اور اپنی ذات کی حقیقت، مجھے مٹی کا ڈھیر بنائے رکھتی لیکن چند ہاتھ تھے جنھوں نے اس گارے کو تعمیر کی شکل دے دی۔

اوائل عمر ہی تھی کہ ایک دن بھائی جان نے ایک کیسٹ لاکر دی پھر اس ذات نے زندگی کی راہیں متعین کردیں انہیں تلاش کیا اور پھر میری تلاش کو منزل مل گئی۔ شیخ الاسلام کی صورت میں وہ راہنما مل گئے جس نے فکر کی آبیاری کی روح کی پہچان کروائی اور عمل کو سمت دی۔

شیخ الاسلام کا ہم پر سب سے بڑا احسان ہماری فکری تربیت ہے ورنہ ہم بھی عصر حاضر کے فتنوں کا شکار ہوجاتے اور سیکولرازم کے لایعنی نظریات میں ڈھل جاتے ہیں یا نام نہاد مذہبی راہنماؤں کے شکنجے میں پھنس کر دین کی اصل روح سے دور کردیئے جاتے۔

شیخ الاسلام نے ہمیں عورت کے اس باوقار کردار سے متعارف کرایا جو روایتی اساس کا مآخذ بھی لیے ہوئے ہے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہے۔

شیخ الاسلام نے ہمیں شریعت سے طریقت اور طریقت سے حقیقت کے رموز سے آشنا کیا جس نے ظاہر و باطن کے سفر کو آسان کردیا۔ الغرض فکری بالیدگی کے سفر نے قلب و ذہن کو منور کردیا، مذہب میں ضابطہ حیات کی پابندیاں بظاہر اس کے مقصد تصور کا عکس دیتی ہیں جسے مذہب بیزار طبقے نے اور بھی ہوا دی اور نام نہاد مذہبی طبقہ اپنی ناسمجھی سے اس پر مہر تصدیق ثبت کرتا رہا، سوشل ورک سے متعلق ہونے کی وجہ سے میرا واسطہ ان صحبتوں سے رہا جو مذہبی جبر کی ان شکوں پر سوال اٹھانے والی تھیں جیسے جیسے میں شیخ الاسلام کو سنتی گئی ذہن کے فکری دریچے کھلتے گئے۔ایک حیرت کدہ تھا کہ جسے جبر سمجھا گیا وہ تحفظ تھا اصل کی شناسائی اور خیال کی وسعت نے زندگی میں آگہی کی کرنیں بکھیر دیں۔

شیخ الاسلام سے جو فیض عطا ہوا ان جواہرات میں ایک موتی، جدوجہد میں حرمت و حیا کا تصور ہے خدمت دین اور اصلاح احوال کی اس تحریک میں جو ایک طویل جدوجہد ہے، وہ بہت لمبا سفر ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کی طلبہ تنظیموں کے معاملات ہوں، بغیر ٹرانسپورٹ کے دن سے رات گئے تک نگر نگر کی سیاحی ہو، سیاسی جدوجہد کی ریلیاں ہوں، ٹرکوں کا سفر ہو یا پھر دھرنوں کی سڑکیں ہوں تربیت قائد نے وہ استقامت بخشی ہے جو بے مثال ہے۔

لمحہ لمحہ تربیت ہے ابتدائی دور میں اجازت مانگی کہ نوجوان بچیوں، لڑکیوں میں کام کا مزاج جدا ہے جس کے لیے الگ ونگ بنانا ہے، اجازت مرحمت فرمائی۔ قیادت نے ہمیشہ اعتماد بھی دیا بھروسہ بھی کیا اور تربیت بھی فرمائی جس نے بڑے بڑے اعصاب شکن مراحل کو زندگی سے بآسانی گزار دیا۔

الحمدللہ حرمت و حیا کی قدر منھاج القرآن ویمن لیگ کا خاصہ ہے۔ عموماً کسی تنظیم یا تحریک سے وابستہ ہونا زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے لیکن تحریک منہاج القرآن تو ساری کی ساری حیات ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ شیخ الاسلام کی صورت میں ہمیں ہمہ جہت راہنمائی میسر ہے جس نے اقامت دین کے لیے شدید جذبوں کو بھی پروان چڑھایا لیکن جذباتیت کی رو میں بھی بہنے نہ دیا۔ عائلی زندگی کے معاملات ہوں یا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مراحل، اسی تحریکی جدوجہد کے ساتھ انہیں کیسے متوازن کرنا ہے۔ یہ قیادت کی راہنمائی کا ہی ثمر ہے کہ مجھ جیسی جنونی طبیعت کو جسے شادی اور بچے بھی تحریک کی راہ میں رکاوٹ لگتے تھے۔ اس عظیم قائد نے مجھے سکھایا کہ نظام زندگی کے تقاضوں کے ساتھ کیسے انقلابی جدوجہد کو چلایا جاسکتا ہے۔

میری انتہائی خطرناک اعصابی بیماری جس میں اعضا بھی ضائع ہوجاتے ہوں اس کے ساتھ ساتھ تحریکی جدوجہد کو بھی موقوف کیے بغیر اپنی Ph.D کا اعلیٰ اعزاز کے ساتھ مکمل کرنا، اس توازن اور استقامت کا ہی نتیجہ ہے جو تربیت قائد کا بہترین ثمر ہے۔ حکمت و دانائی کا جوہر بھی مجھے اس بارگاہ سے سیکھنے کو ملا ہے۔ اوائل دور میں قائد محترم کی حکمت و دانائی دیکھ کر میں سوچتی تھی یہ ان کا روحانی تصرف ہے یا فراست، پھر سمجھ آئی کہ روحانی تصرف ہی فراست کو فیض رساں کرتا ہے اور فیض رسانی امر رب ہے۔ وگرنہ عقل و فہم کے دریچے تو زمانے بھر میں فتنہ و فساد بپا کیے ہوئے ہیں۔ انفرا دی اجتماعی جدوجہد سے کس طرح خاندان، سماج، ادارے اور ریاست تک آپ کے عمل خیر سے فیض رساں ہوسکتے ہیں۔ اس کی حکمت و دانائی کا ہنر بھی حضور سیدی شیخ الاسلام کی ذات سے بہتر کس سے سیکھا جاسکتا ہے۔

انسانی کردارکے اعلیٰ اوصاف و کمالات اپنے عظیم رہبر و راہنما کی شخصیت میں جس طرح نظر آتے ہیں۔ عصر حاضر میں اس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ بڑی بڑی شخصیات کا قرب جیسے جیسے بڑھتا ہے۔ عموماً ان کا چھوٹا پن آپ کو محو حیرت کردیتا ہے۔ رب کی رحمت سے ہمیں وہ عظیم لیڈر ملا جن کی قیادت و راہنمائی کا جتنا قرب ملتا گیا توں توں ان کے اوصاف حسنہ کا ادراک سمندر کی طرح لگا جو اخلاق رفعیہ کے جواہرات سے خوب مزین ہے۔

سب سے بڑھ کر احسان قائد یہ ہے کہ ہمیں حضورﷺ کی بارگاہ سے وابستہ کردیا اور وہ تحریک عطا کی جو دو جہانوں کے لیے ’’ہمارا سرمایہ ہے‘‘ اور ’’ہمارا عشق ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کا دائمی قرب عطا فرمائے۔ آمین