نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز

پروفیسر حلیمہ سعدیہ

قارئین کرام! معاشرتی اصلاح ایک ایسا اہم فریضہ ہے کہ جس کو ادا کرنے کے لیے اللہ رب العزت کی جانب سے رسول اور نبی تفویض کیے جاتے رہے اور جب نبی آخرالزماں محمد مصطفی ﷺ پر رسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا تو اصلاحِ معاشرہ کی یہ اہم ذمہ داری رسولِ خدا (ﷺ) کی فراہم کی ہوئی شریعت کے اصول و ضوابط کے دائرہ میں رہتے ہوئے اولیاء کرام نے نبھانی شروع کی اور ان مردان خدا کا وہ تصور جسے مفکر پاکستان شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے ’’مردِ مومن‘‘ کہہ کر پکارا ہمارے زمانے تک پہنچتے پہنچتے عصرِ حاضر کی مادیت سے بھرپور اور الجھی ہوئی تصویر میں اتنے پردو ں میں چھپ چکا ہے کہ اصل ہیرے کو پہچان کر اس کی آب و تاب سے آنکھوں کو خیرہ کرنا گویا سمندر کی عمیق گہرائیوں سے درِ نایاب تلاش کرنے کے مترادف ہے کیونکہ عصر حاضر کی بڑھتی ہوئی آبادیوں میں انسانوں کے اس سمندر میں درِ نایاب تو موجود ہیں لیکن بے راہ روی اور مادیت پرستی کے اندھیروں میں ڈوبے معاشرہ میں ان تک پہنچ جانا اور ان سے فیض یاب ہوکر باطل کے اندھیروں کو مٹانا بہت بڑی خوش قسمتی ہے۔

قارئین کرام! یہ وہ مرد حق ہیں جو خلافت الہٰیہ کا وہ منصب جو حضرت انسان کو عطا ہوا ہے کی منہ بولتی تصویر ہیں ۔ یہ وہ مرد حق ہیں جو معاشرے میں موجود گوناں گوں تلخیوں، الجھنوں، لالچ و فریب، مکاری و جھوٹ، بے ایمانی و بے عدلی، مرتبے اور امارت کی اندھی دوڑ کا حصہ نہیں بنتے بلکہ اس شعر کے مصداق:

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

تمام معاشرتی الجھنوں اور برائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور نہ صرف خود رضائے الہٰی کا حصول ممکن کر پاتے ہیں بلکہ افرادِ معاشرہ کی اصلاح کرکے ان کو بھی اللہ رب العزت کی رضا کے حصول کی جانب گامزن و کامیاب کردیتے ہیں۔یہی وہ مردان خدا ہیں کہ جن کے لیے اقبال نہ کہا:

وہی ہے بندہ حُر جس کی ضرب ہے کاری
نہ وہ کہ حر ب ہے جس کی تمام عیاری
ازل سے فطرت احرار میں ہیں دوش بدوش
قلندری و قبا پوشی و کلہ داری
زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے
انہی کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری
وجود انہی کا طواف بتاں سے ہے آزاد
یہ تیرے مومن و کافر، تمام زناری

بلاشبہ انسان کو اللہ کریم نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے مگر ذہن اور دل کی صورت میں وہ ایسی انمول طاقتیں انسان کو عطا ہوئی ہیں کہ جو اس کو ہجوم بے کراں میں ممتاز حیثیت عطا کرتی ہیں۔ دل جمالی صفات سے انسان کی ذات کو مزین کرتا ہے جبکہ ذہن اس کے لیے سمتوں کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ گویا دل اور دماغ دونوں باہم ہوں تو کاوشیں رنگ لاتی ہیں اور اگر دل و دماغ میں جنگ چھڑ جائے تو بے چینی، اضطراب اور کشمکش میں مبتلا ہوکر انسان معمولی امور کو بھی کامیابی سے سرانجام دینے سے قاصر رہتا ہے۔ ایسے میں معاشرے کو ایسے مرد حق کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو دماغ کی سختی کو دل کی نرمی سے اور دل کے جذباتی پن کو دماغ کی سمجھداری سے متوازن کرنا سکھاتا ہے اور دل و دماغ کا یہی توازن ایک بہتر طرز زندگی کے حامل انسان کو جنم دیتا ہے۔

جس کی ظاہری طمانیت اندرونی سکون کا پتہ دیتی ہے اور ایسا انسان ہی معاشرے کے لیے امن کا پیامبر ثابت ہوتا ہے کہ جس کے دل و دماغ اس کی گرفت میں ہوں نہ کہ وہ دل اور دماغ کے ہاتھوں کھلونا بنا رہے۔ عصر حاضر میں معاشرتی اصلاح کا یہ فریضہ عظیم نبھانے اور ہم لوگوں کو دل و دماغ کو قابو میں رکھنا سکھانے کا کمال جس کو عطا ہوا ہے اس نابغہ روزگار ہستی کا نام ’’شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری‘‘ ہے۔

ایک ایسا مرد حق جس کو قدرت نے اسلامی مفکر، محدث، مفسر اسلام ہونے کا شرف ہی نہیں دیا بلکہ اس ہنر سے نوازا جو اللہ کے بندوں کو رب کی رضا کی جانب موڑتا اور اصلاح معاشرہ میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ وہ ہنر ہے جو کبھی منہاج کالجز، منہاج ماڈل سکولز، منہاج شعبہ تحفیظ، منہاج شریعہ کالجز، منہاج یونیورسٹی کی صورت میں معاشرہ کے ہر فرد کی تعلیم و تربیت میں مشغول نظر آتا ہے تو کہیں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام قائم مساجد اور گوشہ درود کی صورت میں روح کی پیاس بجھانے اور قلب کی تسکین کا سبب ہے۔

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا جو درس ہے اس کی منہ بولتی تصویر جناب شیخ الاسلام محترم ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات اور ان کے عظیم علمی کارناموں میں عیاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ شب و روز قرآن و سنت کی تعلیمات کے ذریعے فروغ علم و شعور، اصلاح احوال امت اور ترویج و اقامت دین کے لیے کوشاں ہیں۔ شیخ الاسلام اپنی تحریک کے قیام کا مقصد ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’تحریک منہاج القرآن کے بپا کیے جانے کا مقصد اولیں غلبہ دین حق کی بحالی اور امت مسلمہ کے احیاء و اتحاد کے لیے قرآن و سنت کے عظیم فکر پر مبنی جمہوری اور پرامن مصطفوی انقلاب کی ایسی عالمگیر جدوجہد ہے جو ہر سطح پر باطل، طاغوتی، استحصالی اور منافقانہ قوتوں کے اثرو نفوذ کا خاتمہ کردے۔‘‘

جناب ڈاکٹر طاہرالقادری نے طریقت و تصوف اور سلوک و معرفت کی تعلیم و تربیت جناب طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادیؒ سے حاصل کی۔ گویا روحانی فیض کے حصول کے لیے قدرت حق نے خصوصی کرم فرماتے ہوئے عالم اسلام کی عظیم المرتبت روحانی شخصیت سیدنا طاہر علاؤالدینؒ جیسی عظیم المرتبت ہستی کا وسیلہ عطا فرمایا۔ شیخ الاسلام جناب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا اعجاز ہے کہ آپ کو علم الحدیث، علم التفسیر، علم الفقہ، علم التصوف والمعرفۃ، علم اللغۃ والادب، علم النحو والبلاغۃ اور دیگر کئی اسلامی علوم و فنون اور منقولات و معقولات کا درس اور اسانید و اجازات اپنے والد گرامی سمیت ایسے جید شیوخ اور کبار علماء سے عطا ہوا کہ جنہیں گزشتہ صدی میں اسلامی علوم کی نہ صرف حجت تسلیم کیا گیا بلکہ وہ حضور نبی اکرم محمد مصطفیﷺ تک مستند و معتبر اسانید کے ذریعے منسلک ہیں۔

گویا اقبال اپنے فلسفہ خودی میں جس معرفت ذات کا ذکر کرتے ہیں اور پھر اس معرفت کو پالینے کے بعد اس کو قوم کے مجموعی مفاد میں ضم کردینے کا درس دیتے ہیں۔ اس کی خوبصورت اور حقیقی مثال دور حاضر میں اگر کہیں ملتی ہے تو وہ شیخ الاسلام کی ذات میں ہے۔ اسی لیے شیخ الاسلام نے اپنے علمی و تجدیدی کام کی بنیاد عصری ضروریات کے گہرے اور حقیقت پسندانہ تجزیاتی مطالعے پر رکھی، جس نے کئی قابل تقلید مثالیں قائم کیں۔

عصری علوم کی بات ہو یا فروغ دین کا فریضہ اولین محترم جناب شیخ الاسلام نے زندگی کے تمام اہم شعبوں میں سماج کی اصلاح کے لیے مثبت اقدام اٹھائے۔ فروغ دین میں آپ کی دعوتی و اجتہادی کاوشوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور جدید عصری علوم میں وسیع خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام نے ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے اردو اور انگریزی زبان میں جامع اور عام فہم ترجمہ کرکے ایک ایسا کمال کیا ہے کہ آج کی نسل کو قرآن مجید فرقان حمید کو پڑھنا، سمجھنا اور خصوصاً مطالب قرآن کو ادبی، لغوی، نحوی، علمی اعتقادی فکری اور سائنسی لحاظ سے سمجھنا ممکن اور آسان ہوگیا ہے۔

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفت سورہ رحمن

آئینہ میں شیخ الاسلام کی ہستی اس مومن باصفا کی مانند ہے کہ جس کی ذات میں عدل، حیا، خوف خدا، قلب سلیم، قوت، صدق، قدوسی، جبروت، بلند ارادہ، پاک ضمیری، نیکی اور پاکبازی جیسے نگینے جڑے ہوئے ہیں۔

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

قوم کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دینے میں شیخ الاسلام نے اپنی تمام تر قوتیں صرف کردی ہیں۔ یہی وہ نگاہ مرد مومن ہے جو تقدیروں کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ وہ نگاہ جو پورے سماج کی بھلائی کے لیے اٹھتی ہے۔ وہ نگاہ جو لالچ اور حوس سے بھرپور رویوں کو ایثار و قربانی کے جذبے میں بدل ڈالتی ہے۔ بقول اقبال:

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
چہ باید مرد را طبع بلند ہے، مشرب نابے
دل گرمے، نگاہ پاک بپنے، جان بپتا بے

بے شک یہ نگاہ پاک بیں اور جانِ بیتاب جب عمل پیرا ہوتی ہے تو منہاج القرآن جیسے فورم معرض وجود میں آتے ہیں جو اصلاح معاشرہ اور تبلیغ دین کے فرائض کو بہ احسن انجام دیتے اور حیات جاودانی کے رستے دکھا جاتے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس مرد حق کو عمر خضر عطا فرمائے اور فیض کے وہ دریا جو شیخ الاسلام کے قائم کردہ اداروں میں جاری و ساری ہیں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی وسعت قلب و نظر پر دلیل ہیں۔ روز افزوں ترقی کریں کہ ایسے راہبروں کے لیے ہی تو اقبال کہتے ہیں:

تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا خدا کا ترجماں ہوجا

عصر حاضر میں امت مسلمہ کے لیے ہدایت کی شمعیں روشن کرتی اس عظیم ہستی کا وجود خداوند قدوس کا خاص کرم معلوم ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام کا رسول اللہﷺ سے عشق اور رضائے الہٰی کے حصول کے لیے بندگان خدا کی خدمت کا جذبہ وہ وصف ہیں کہ جنہوں نے آپ کو مسلم معاشرہ میں آج کی تصویر کا نمایاں اور دلکش ترین رنگ بنادیا ہے اور شیخ الاسلام کا وجود ہمارے لیے ایک ایسے محسن کا روپ ہے جو ہمیں ہماری گم گشتہ دولت یعنی تہذیب مسلم کو پانے کے قابل بنارہا ہے۔ آپ آج کی نسل کے لیے ایک ایسے میر کارواں ہیں کہ جو:

نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

کی عملی نظیر ہیں۔