ڈاکٹر طاہرالقادری اور فرقہ واریت کا خاتمہ

ڈاکٹر فوزیہ

شہر اعتکاف سے ایک واقعہ کا ذکر قارئین کی توجہ کے لیے کررہی ہوں جو میں نے اپنے بھائی (دلاور محمود ) سے سنا۔ ان کے اس مشاہدے نے ہماری زندگی پر گہرا اثر ڈالا آپ بتاتے ہیں کہ:

دورانِ اعتکاف اتحاد امت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے پوچھا:

"آپ میں سے کون کون اہلسنت والجماعت کے مسلک سے تعلق نہیں رکھتا زرا ہاتھ کھڑا کریں"

میرے ارد گرد اور آگے پیچھے سینکڑوں ہاتھ کھڑے ہو گئے۔ میں حیرت سے ان کو تکنے لگا اور اپنے تئیں سوچنے لگا کہ ان لوگوں کو سوال سمجھ نہیں آیا بس اتنا سمجھ آیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ کھڑا کرنے کے لیے بولا ہے لہذا انہوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں۔ اپنی تسلی کے لیے میں نے قریب بیٹھے ایک صاحب سے پوچھا آپ نے ہاتھ کیوں کھڑا کیا تو وہ بولے

"میں اہل حدیث ہوں"

میں نے ایک اور صاحب سے یہی سوال کیا تو وہ بولے

"میں اہل تشیع ہوں".

جب میں نے تیسرے شخص سے پوچھا تو بولا

"میں اہل سنت (دیوبندی) ہوں"

یہ منظر دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگا کہ پاکستان میں ایک ایسا عالم دین بھی ہے جس کے ساتھ دس دن اعتکاف کرنے کے لیے ہر مکتبہ فکر کے لوگ آئے بیٹھے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں ہر مسلک کا فرد یہاں آسکتا ہے بلکہ آتے ہیں کیونکہ یہاں بات قرآن و حدیث کے مطابق ہوتی ہے اور ہم لوگوں کو توڑتے نہیں بلکہ جوڑتے ہیں۔ اس کا ثبوت پیش کرنے کے لیے انہوں نے دوسرے مسالک کے لوگ جو دس روزہ اعتکاف کے لئیے آئے تھے انہیں ہاتھ کھڑا کرنے کے لیے کہا تھا۔

یہ منہاج القرآن کے شہر اعتکاف کا واقعہ ہے جس نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور میں تنگ نظری سے نکل کر وسعت نظری کی طرف سفر طے کر گئی۔

اس واقعہ نے میری نظروں میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا قد اور بلند کر دیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری جہاں نوجوان نسل کو اسلام کے حقیقی اور ابدی پیغام سے آشنا کر رہے ہیں وہیں وہ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے مخلصانہ عملی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ ان کے ادارے کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں اور لوگ بلا امتیاز مسلک ان کے علم کا فیض حاصل کرنے آتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کی اتحاد امت کے لئے جدو جہد کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال عالمی میلاد النبی ﷺ کانفرنس ہو، پیغام امام حسین علی السلام کانفرنس ہو یا صدیق اکبرؓ کانفرنس ہو ہر مسلک کے چوٹی کے علماء کو دعوت دی جاتی ہے اور انہیں کھل کر موقف بیان کرنے کا موقع بھی دیا جاتا ہے اور پھر ڈاکٹر صاحب کا سحر انگیز خطاب ان علماء کرام کے دلوں میں مزید وسعت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت سے نفرت بھی پیدا کرتا ہے۔

اتنا روشن خیال عالم دین میں نے ڈاکٹر صاحب کے علاوہ نہیں دیکھا جو اہل تشیع کے امام بارگاہ میں جا کر اہل بیت اطہار کے فضائل پر گھنٹوں مدلل اور موثر گفتگو یوں کرتا ہے کہ سننے والوں کے دلوں پر گہرا اثر ہوتا ہے اور محبت اہل بیت کے چراغ یوں جلتے ہیں کہ ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے۔ ایسا وسیع القلب قائد بھی کوئی نہیں ہو گا جو دوسرے مسالک کے لوگوں کو اپنی تحریک میں کلیدی عہدوں پر مقرر کرے۔ ایسا دبنگ اہل سنت عالم دین بھی ڈاکٹر صاحب کے علاؤہ کوئی نظر نہیں آتا جو اہل تشیع علماء کرام کی موجودگی میں صدیق اکبر کانفرنس میں حضرت ابوبکر صدیق رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل یوں بیان کرے کہ اہل تشیع عالم بھی صدیق اکبر زندہ باد کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو جائیں۔

اس پر فتن دور میں جہاں فرقہ واریت انتہا پر ہے، ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ باد نسیم کا جھونکا ہیں۔ تمام مسالک کے علماء کرام کو ڈاکٹر صاحب کو فالو کرنا چاہئے اور اتحاد امت کی کوششوں کو فروغ دینا چاہیے ورنہ نئی نسل دین اسلام سے مزید دور ہوتی چلی جائے گی۔